پیاری ماں مجھ کو تیری دعا چاہئے

ریڈیو میں وہ پروگرام زیادہ مشہور ہوئے جن میں سامعین کی آراءشامل تھیں‘ اسی طرح کے پروگرام کا ذکر کرتے ہوئے معروف براڈ کاسٹر رضا علی عابدی لکھتے ہیں کہ جن دنوں میں انڈیا آفس لائبریری اور برٹش لائبریری میں انیسویں صدی کی بھولی بسری اور نایاب کتابوں کا مطالعہ کررہا تھا بہت سی ایسی کتابیں ملیں جو اس زمانے کے بچوں کےلئے لکھی گئی تھیں اور میرے بچوں کے دادا نے پڑھی ہوں گی‘ اس پر ”دادا کی کتابیں“کے عنوان سے پروگرام شروع کیاگیا اور سننے والوں کو وہ قدیم کتابیں پڑھ کر سنائی گئیں جو ان کے دادا پردادا پڑھتے ہوں گے‘ پروگرام شاہین کلب کی ایک اور بے مثال کامیابی اس کے انعامی مقابلے تھے‘ چونکہ سننے والوں کی تعداد بہت زیادہ تھی اس لئے ان مقابلوں میں بلامبالغہ ہزاروں بچے حصہ لیتے تھے‘ پروگرام کے دو مقابلے مجھے ہمیشہ یاد رہیں گے۔شاہین کلب میں ماں کی محبت کا ذکر بہت ہوتا تھا اور خلیل احمد کا بچوں کا کورس پیاری ماں مجھ کو تیری دعا چاہئے، تیرے آنچل کی ٹھنڈی ہوا چاہئے‘مسلسل آنے والی فرمائشوں پر نشر ہوا کرتا تھا‘ اسی مناسبت سے ہم نے سننے والوں کو دعوت دی کہ وہ ماں کی محبت کے بارے میں اپنی زندگی کا کوئی یادگار واقعہ لکھ کر بھیجیں‘ یہ اعلان تو کمال کا ثابت ہوا‘ بچوں اور بڑوں سب نے ماں کی محبت کے بارے میں دل پر اثر کرنے والے ایسے ایسے واقعات لکھ کر بھیجے کہ انہیں سٹوڈیو میں پڑھتے پڑھتے ہم سب کی آنکھیں بھیگ جاتی تھیں‘ اس مقابلے میں نو سو خط آئے‘ ان میں قابل غور خط چھانٹنے کاکام ہم سب نے آپس میں بانٹا اور پھر جو بہت اچھے خط چنے گئے ان میں سے انعام پانے والے دس بارہ خط چننے کا فرض ذرا سوچئے کسے سونپاگیا‘ اپنے وقت کی بہت بڑی ادیبہ قرة العین حیدر کو۔اس انعامی مقابلے کی کامیابی سے متاثرہو کر ہم نے دوسرا مقابلہ کرایا اور اپنے سننے والوں کو دعوت دی کہ 
گھریلو یا پالتو یا کسی بھی جانور کے متعلق کوئی واقعہ پیش آیا ہو تو لکھ کر بھیجئے‘ اس کے جواب میں دور دور سے سات سو خط آئے اور اکثر خط اتنے دلچسپ اور شگفتہ تھے کہ انہیں چھانٹنے کا وقت ہنستے ہنستے ہی گزرا‘ انعام کسے دیاجائے‘ یہ فیصلہ ہم نے اس دور کے سب سے بڑے مزاح نگار مشتاق احمد یوسفی پر چھوڑا‘ وہ سارے قصے کہانیاں بھی لاہور سے کتابی شکل میں شائع ہو گئے ہیں۔رضا علی عابدی ریل کے سفر کی روداد میں ایک بڑا تاریخی حوالہ بتاتے ہیں کہ ہندوستان میں سب سے پہلی ریل گاڑی 1853ءمیں چلی‘ 16 اپریل 1853ءکو بمبئی میں عام چھٹی کا اعلان کیا گیا‘ بوری بندر کے سٹیشن پر گورنر کے بینڈ نے انگریزی دھنیں بجائیں اور جب سہ پہر تین بج کر 35 منٹ پر پہلی ریل گاڑی چار سو مسافروں کو لے کر چلی تو ہر رنگ‘ ہر نسل کے بے شمار لوگوں نے خوش ہو کر تالیاں بجائیں اور گاڑی کو اکیس توپوں کی سلامی دی گئی۔ یہ گاڑی تھانے تک گئی تھی اس میں 14 ڈبے لگائے گئے تھے اور تین انجن اسے کھینچ رہے تھے‘ ان انجنوں کے نام تھے سندھ‘ سلطان اور صاحب۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ بھاپ کا پہلا انجن 22 دسمبر 1851ءکو روڑکی میں چلایا گیا تھا‘ اس کے پرزے بھی برطانیہ سے سمندری جہاز میں لائے گئے تھے اور پھر دریائی بجروں‘ اونٹوں اور بیل گاڑیوں پر لاد کر روڑکی پہنچائے گئے تھے جہاں انجینئرنگ کالج کے کاری گروں نے وہ پرزے جوڑ کر انجن تیار کیا تھا اور اس وقت کے پنجاب کے حاکم ٹامسن کے نام پر اس کا نام ٹامسن رکھا گیا تھا۔ اس وقت (کرنل) کاٹلی صاحب ہردوار سے نہر نکال رہے تھے اور روڑکی میں سولانی ندی اس نہر کی راہ میں حائل تھی‘ چنانچہ فیصلہ ہوا کہ ندی کے اوپر مضبوط پل تعمیر کیا جائے گا اور نہر اس پل کے اوپر بہا کرے گی۔ انجینئرنگ کے اس کارنامے کی تکمیل کے لئے شہر کی فاﺅنڈری سے ندی تک پٹڑی ڈالی گئی تھی اور خیال تھا کہ بھاپ کا یہ ریلوے انجن بھاری بھر کم ساز و سامان ڈھو کر زیر تعمیل پل تک پہنچایا کرے گا۔ سنا ہے کہ انجن کچھ زیادہ کارآمد ثابت نہیں ہوا اور کتابوں میں لکھا ہے کہ روڑکی کی انجینئرنگ یونیورسٹی کے عجائب گھر میں وہ آج تک کھڑا ہے۔