گزشتہ چند ماہ میں شام کی مسلح افواج نے داعش کے ٹھکانوں پر حملے کر کے بیسیوں جنگجو ہلاک کر دیئے۔ وسطی شام کے صحرائی اور پہاڑی علاقوں میں کئے جانے والے ان حملوں میں روسی فضائیہ نے شامی افواج کی بھرپور مدد کی۔ امریکی میڈیا کے مطابق یہ جھڑپیں اتنی شدید تھیں کہ روس کو ان غاروں پر فضائی حملے کرنے پڑے جن میں داعش کے جنگجو چھپے ہوئے تھے۔ دنیا بھر کی توجہ جب یوکرین اور غزہ کی جنگوں پر مرکوز تھی تواس وقت شام ‘ داعش کے ساتھ ایک ایسی خونریز جنگ میں الجھا ہوا تھا جس کے شعلے کئی برسوں سے بھڑک رہے تھے۔ داعش کی نیوز ایجنسی ” عماق“ اور اس کا نیوز لیٹر ” النبائ“ ہمیشہ سے یہ کہہ رہے ہیں کہ روس نے دمشق میں بشارالاسد کی حکومت کو تحفظ دیکر مشرق وسطیٰ میں نفاق کا بیج بویا ہے۔ داعش‘ جسے مغربی میڈیا ISIS یعنی اسلامک سٹیٹ آف عراق اینڈ سریا(شام) کہتا ہے‘ کا یہ پرانامﺅقف ہے کہ ولادیمیر پوٹن کے ہاتھ مسلمانوں کے خون سے رنگے ہوئے ہیں اس لئے روس سے انتقام لینا ان کی اولین ذمہ داری ہے۔ اسی مقصد کے حصول کے لئے جمعے کے دن ISIS (K) یا داعش خراسان نے ماسکو کے مضافات میں کراکس سٹی ہال ‘ جس میں چھ ہزار سے زیادہ تماشائی موجود تھے‘ میں ایک میوزک کنسرٹ کے شروع ہونے سے کچھ پہلے حملہ کرکے 130 سے زیادہ افراد ہلاک اور سینکڑوں زخمی کر دیئے۔ ا س حملے کے دوران چار نوجوان دہشت گردوں نے مشین گنوں سے گولیاں برسانے کے علاوہ بارودی مواد استعمال کرکے کنسرٹ ہال کی عمارت کو بھی نقصان پہنچایا۔ اس حملے کے اغراض و مقاصدکے بارے میں ” عماق“ نے گزشتہ روز لکھا ہے کہ یہ حملہ اسلامک سٹیٹ اور مسلمان دشمن قوتوں کے درمیان معمول کی جنگ کا حصہ ہے۔ اس تبصرے کو درست قرار دیتے ہوئے جرمنی میںجوہری توانائی کے پھیلاﺅ کے تدارک پر تحقیق کرنے
والے ادارے James Martin Center For Nonproliferation Studiesکے ترجمان Hanna Notte نے کہا ہے کہ ”عماق“ کا یہ تبصرہ اس سلسلے کی ایک کڑی ہے جس کا آغاز روس نے افغانستان پر حملہ کر کے کیا تھا اور پھر یہ جنگ چیچنیا جا پہنچی جو مشرقی یورپ کے قریب واقع روس کی جنوب مغربی ریاست ہے۔ چیچنیا کی جنگ آزادی کو کچلنے کے لئے روس نے دسمبر 1994ءاور اگست 1999 ءمیں دو طویل جنگیں لڑی تھیں۔افغانستان میں 1980ءکی دہائی میں شروع ہونیوالی روس اور جہادی تنظیموں کی کشمکش چیچنیا سے ہوتے ہوے 2015ءمیں شام جا پہنچی۔ ان دنوں ا یک طرف امریکہ اور سعودی عرب ملکر شام میں بشار الاسد کی حکومت کو گرانے کی کوشش کر رہے تھے تو دوسری طرف داعش بھی مشرق وسطیٰ میں روس کے مفادات کے خلاف بر سر پیکار تھی۔ اکتوبر 2015 ءمیںداعش نے قاہرہ سے سینٹ پیٹرز برگ جاتے ہوئے ایک روسی جہاز کو صحرائے سینا پر گرا کر 224 مسافر ہلاک کر دیئے تھے۔روس اور داعش کے درمیان اس جنگ میں مزید تیزی اس وقت آئی جب فروری ء2017 میں ولادیمیر پیوٹن نے کہا کہ روس سے چار ہزار اور وسطی ایشیائی ریاستوں سے پانچ ہزار جنگجو شام کے خلاف جنگ کے لئے
روانہ ہو چکے ہیں۔پوٹن نے اس جنگ میں فتح حاصل کرنے کے عزم کا اظہار کرتے ہوئے کہا تھا کہ ” ہم جانتے ہیں کہ شام دہشت گردی کا ایک دہکتا ہوا لاﺅ بن چکا ہے“ صدر پیوٹن کے سات برس پہلے دئیے ہوئے اس بیان کے ڈانڈے جمعہ بائیس مارچ کے دن ماسکو کے کنسرٹ ہال پر ہونے والے حملے سے اس لحاظ سے ملتے ہیں کہ اس واردات کے چاروں حملہ آور روس کی تاس نیوز ایجنسی کے مطابق تاجکستان کے شہری ہیں‘ انہیں نا تجربہ کار جنگجو نہیں کہا جا سکتا‘ انہوں نے افغانستان میں واقع داعش کے ٹریننگ کیمپوں میں کئی ماہ تک تربیت حاصل کی تھی۔ داعش کی طاقت اور پہنچ کا اندازہ اس امر سے لگایا جا سکتا ہے کہ شام اور عراق میں اسے شکست دینے کے لئے روس اور امریکہ نے الگ الگ دو برس تک اس کا مقابلہ کیا تھا‘ یہ امر واقعہ ہے کہ دو عالمی طاقتیں اگر اپنی عسکری قوت کا بھرپور استعمال نہ کرتیں تو داعش کو شام اور عراق سے نکالنا مقامی حکومتوں کے بس کی بات نہ تھی۔ داعش ‘ شام اور عراق میں شکست کھانے کے بعد اب افغانستان کو اپنا ٹھکانا بنا چکی ہے جہاں سے اس نے تین جنوری کو ایران کے شہر کرمان میں جنرل قاسم سلیمانی کی برسی کے موقع پر دو خود کش حملے کر کے 93 افراد ہلاک اور 284 زخمی کئے تھے۔ گزشتہ دو برسوں میں پختونخوا اور بلوچستان میں ہونیوالے متعدد حملوں میں بھی ٹی ٹی پی کے علاوہ داعش کی شمولیت کی اطلاعات بھی عالمی میڈیا میں شائع ہوئی ہیں۔ پیر کے روز شانگلہ میں پانچ چینی باشندوں کی ہلاکت کے سانحے میں بھی داعش کی شرکت کو خارج از امکان قرار نہیں دیا جا سکتا۔ داعش خراسان واضح طور پرطالبان حکومت کے روس‘ ایران اور پاکستان کیساتھ تعلقات کو نقصان پہنچانے کے ایجنڈے پر عملدرآمد کر رہی ہے اوران انتقامی کاروائیوں میں اسے اب تک کئی کامیابیاں حاصل ہوئی ہیں۔