امریکہ میں ری پبلکن پارٹی کی حامی اسلامی تنظیمیں ڈونلڈ ٹرمپ کو مسلمانوں کا ہمدرد اورخیر خواہ سمجھتی ہیں انہیں سابقہ صدر کی مسلم کش پالیسیوں کی تفصیل بتائی جائے تو وہ بڑی ڈھٹائی سے کہہ دیتے ہیں کہ انہیں انکی بعض پالیسیوں سے اختلاف ہے مگر اس کا یہ مطلب نہیں کہ وہ مسلمانوں کے دشمن ہیں‘ اس طبقے کے ایک سرگرم سیاسی رہنما جو ری پبلکن پارٹی کے پرانے وفادار ہونے کے علاوہ ڈونلڈ ٹرمپ کے زبردست حمایتی بھی ہیں ‘کا نام ساجد تارڑ ہے‘ جو مسلم آف امریکہ نامی تنظیم کے چیئرمین بھی ہیں‘ چند ہفتے قبل جیو نیوز کے ایک ٹاک شو میں انہوں نے اپنے افکار تفصیل سے بیان کئے۔ ساجد تارڑ نے اس روزفیک نیوز اور ڈس انفارمیشن سے لبریزکہانیاںجس بے خوفی اور دھڑلے سے سنائیں ‘انہیں جان کر ڈونلڈ ٹرمپ بھی ششدر رہ جائیں گے۔ ایک موقع پر پروگرام کے میزبان سلیم صافی صاحب نے ان کی توجہ اس طرف مبذول کرائی کہ سابقہ صدر نے اسرائیل کا دارالخلافہ تل ابیب سے یروشلم منتقل کیا تھا اس کے جواب میں تارڑ صاحب نے اپنی راست گوئی کی دھاک جماتے ہوئے کہا کہ ” مجھے ان کی اس پالیسی سے اختلاف ہے اور میں نے اس کا اظہار بھی کیا ہے“ میرا خیال تھا کہ سلیم صافی صاحب انہیں ڈونلڈ ٹرمپ کی مسلمان دشمنی کے مزید شواہد پیش کرکے قائل کرنے کی کوشش کریں گے مگر یہ بات یہیں ختم ہو گئی اور ساجد تارڑ صاحب بڑے اعتماد کے ساتھ اپنی دروغ گوئی کی دھاک بٹھانے میں کامیاب رہے‘کسی ایسے شخص کو مسلمانوں کا دوست کیسے کہا جا سکتا ہے جس نے اپنی صدارتی مہم میں ووٹروں سے وعدہ کیا ہو کہ وہ صدر بنتے ہی کئی مسلمان ممالک پر Travel Banلگا دیگا اور پھر اس نے منصب صدارت سنبھالتے ہی یہ وعدہ پورا بھی کر دیاہو‘ ان ممالک میں ایران‘ عراق‘ لیبیا‘ صومالیہ‘ سوڈان‘ شام اور یمن شامل تھے‘ ڈونلڈ ٹرمپ نے20جنوری 2017ءکو صدارت کا حلف لیااور اس کے سات دن بعد اس نے ایگزیکٹیو آرڈر نمبر13780 کے ذریعے مسلم دنیا کو اپنے غیض و غضب اور نفرت سے آگاہ کر دیا‘ یہ اس طویل سلسلے کا آغاز تھا جو بعد میں سابقہ صدر کے دور صدارت میں جاری رہا‘ ڈونلڈ ٹرمپ کو جب بھی امت مسلمہ پر ضرب لگانے کا موقع ملا اس نے اسے جانے نہیں دیا‘25مارچ 2019 ءکو مسلمانوں کی پیٹھ میں چھرا گھونپتے ہوئے سابقہ صدر نے بہ یک جنبش قلم گولان کی پہاڑیوں پر اسرائیل کی ملکیت کو تسلیم کر لیا۔ اس آرڈر میں لکھا ہےNow, therefore I, Donald J.Trump, president of the United States of America , do hereby proclaim that, the United States recognizes that the Golan Heights are part of the state of Israel ان پہاڑیوں پر اسرائیل نے1967کی چھ روزہ جنگ کے دوران قبضہ کیا تھا‘ بعد ازاں شام نے 1973ءمیں ایک بڑا حملہ کر کے یہ علاقہ واپس لینے کی کوشش کی تھی لیکن اسے کامیابی نہ ہو سکی۔ مشرق وسطیٰ کو کسی نئی جنگ سے بچانے کے لئے اقوام متحدہ نے 1974ءمیں شام اور اسرائیل کے درمیان امن کے ایک معاہدے کے تحت گولان ہائٹس کو ایک متنازعہ علاقہ قرار دے دیا ‘اسرائیل نے اس معاہدے کی خلاف ورزی کرتے ہوئے 1981ءمیں ان پہاڑیوں کو اپنے ملک کا حصہ بنا لیا۔ اس کے بعد امریکہ سمیت کسی بھی ملک نے دمشق سے صرف چالیس میل کے فاصلے پر واقع تزویراتی اعتبار سے اس اہم علاقے کو اسرائیل کا حصہ تسلیم نہیں کیا‘ پھر ڈونلڈ ٹرمپ نے اقوام متحدہ کے تمام قوانین اور ضابطوںں کو بالائے طاق رکھتے ہوئے مارچ2019ءمیں ان پہاڑیوں پر اسرائیل کے حق ملکیت کو تسلیم کر لیا۔ آج کل ڈونلڈ ٹرمپ اور اس کا داماد Jared Kushner. فلسطینیوں کے خلاف جو زہر افشانی کر رہے ہیں اس کے بیان کے لئے ایک الگ کالم چاہیئے۔ گذشتہ ہفتے Israel Hayom کو انٹر ویو دیتے ہوئے سابقہ صدر نے اپنے دوست بنجامن نتن یاہو کو مشورہ دیا کہ اپنی جنگ کو پایہ تکمیل تک پہنچاﺅ اور پھر کسی قسم کے امن کی بات کرو۔چند روز پہلے ہارورڈ یونیورسٹی کی ایک تقریب سے خطاب کرتے ہوئے Jared Kushner جو کئی ممالک میں رئیل سٹیٹ کا کاروبار کرتے ہیں ‘نے کہا کہ غزہ کے فلسطینیوں کو Negev Desert (اسرائیل کے جنوب میں واقع صحرائے نیگیو) میں منتقل کر کے غزہ کے ساحلوں پر سیاحوں کے لئے خوبصورت تفریحی مقام بنانا چاہئے‘ڈونلڈ ٹرمپ جسے's strongest ally in the world Netanyahuکہا جاتا ہے کے بارے میں سابقہ صدر کے مسلمان پرستار ہمیں یہ سمجھانے کی کوشش کر رہے ہیں کہ ان کا لیڈر مسلمانوں کا دوست اور غمگسار ہے۔ اس پروپیگنڈے اور فیک نیوز کے ذریعے بے خبر لوگوں کوتو گمراہ کیا جا سکتا ہے لیکن امریکی سیاست کی سدھ بدھ رکھنے والوں کو بے وقوف نہیں بنایا جا سکتا۔
اشتہار
مقبول خبریں
مشرق وسطیٰ‘ یحییٰ سنوار کے بعد
عتیق صدیقی
عتیق صدیقی
ڈونلڈ ٹرمپ‘ ناکامی سے کامیابی تک
عتیق صدیقی
عتیق صدیقی
کیا ٹرمپ کا امریکہ ایک مختلف ملک ہو گا
عتیق صدیقی
عتیق صدیقی
ٹرمپ اور مشرق وسطیٰ
عتیق صدیقی
عتیق صدیقی