قدرت اللہ شہاب اپنے سفر حج کے دوران ایک مصری سرمایہ دار محمد نوفل کا واقعہ لکھتے ہےں کہ بحری سفر کے دوران یوں بھی بحر احمر میں گرمی اپنے پورے شباب پر تھی سمندر کی لہریں جہاز سے ٹکراتی تھےں تو یوں محسوس ہوتا تھا جیسے ہمارے چاروں طرف بڑی بڑی دیگوں میں ابلتا ہوا پانی جو ش کھارہا ہے‘ ہوا بھاپ کی طرح گدلی گدلی سی تھی اور فضا کا سارا ماحول گرم پانی میں بھیگتے ہوئے کمبلوں میں لپٹا ہوا تھا دن بھر کیبن کی کھڑکی سے ہوا کے جھونکے کھولتے ہوئے پانی کے پرنالوں کی طرح اندر گرتے تھے رات کو پورٹ ہول کی ہوا نیم گرم بخارات کی صورت اختیار کرلیتی تھی کچھ کمروں میں بجلی کے پنکھے لگے ہوئے تھے لیکن ان کی گردش رطوبت سے لدی ہوئی بوجھل ہوا کو اپنی جگہ سے ہلانے سے قاصر تھی دھوپ میں آفتاب کی کرنیں لوہے کی گرم گرم سلاخوں کی طرح لٹک رہی تھےں اور جہاز کے ہر مسافر کا چہرہ پسینے کی جھالر میں لپٹا ہوا تھا اس کے باوجود عازمین حج کی ٹولیاں بڑے اطمینان سے عرشے پر جابجا بیٹھی تھےں کچھ لوگ تلاوت میں مصروف تھے کچھ تسبیح کررہے تھے کچھ حج کی دعائیں یاد کرنے میں لگے ہوئے تھے ایک کونے میں محمد نوفل صاحب بھی کرسی پر بیٹھے تھے اور کٹی ہوئی برف کی پوٹلی بار بار سرپر پھیر رہے تھے۔دھوپ میںاطمینان سے بیٹھے ہوئے عازمین حج کی طرف دیکھ کر محمد نوفل نے سرد آہ بھری اور کہا’میں بھی ان لوگوں کا ہم وطن ہوں لیکن ہمارے درمیان ایک بہت بڑا فرق ہے یہ غریب لوگ ہےں ‘ان کے سینے میں قناعت کی اتنی خنکی ہے کہ گرم موسم کی شدت ان پر کوئی اثر نہےں کرتی میرا معاملہ دوسرا ہے میں بڑا کامیاب تاجر اور صنعتکار ہوں میں جس کام میں ہاتھ ڈالتا ہوں اس پر ہن برسنے لگتا ہے لیکن میرا دل
نہےں بھرتامیرے اندر ہر وقت حرص کی بھٹی سلگتی رہتی ہے سردی کے موسم میں بھی برف کے بغیر میری پیاس نہےں بجھتی۔محمد نوفل نے برف کی ڈلی منہ میں ڈال کر کچھ دیر اسے چوسا اور پھر بولا یہ تپش میرے مقدر میں لکھی ہے میں اسے چھوڑنا بھی چاہوں تو چھوڑ نہےں سکتا کیونکہ دولت کمانے کے علاوہ مجھے اور کوئی ہنر نہےں آتا‘ اور مقام پر قدرت اللہ شہاب تقسیم کے وقت ہندوستان سے پاکستان کی طرف آنے والے مہاجرین کے حوالے سے لکھتے ہیں کہ ایک صاحب پانچ تانگے بھارت چھوڑ آئے تھے درخواست دہندہ نے کہا جناب! میرے تانگے غیر منقولہ تھے کیونکہ میں ان میں گھوڑے نہیں جوتتا تھا‘ ایک شخص محمد دین نے ضلع لدھیانہ کے کسی گاﺅں میں آٹا پیسنے کی مشین لگائی ہوئی تھی ‘اس نے اسکی مالیت دو ہزاردو سو روپے درج کی ہوئی تھی ‘مشین خریدنے کی اصل رسید بھی درخواست کیساتھ منسلک تھی ‘ہمارا بورڈ پانچ ہزار روپے سے زیادہ مالیت کے اثاثوں کا فیصلہ کرتاتھا‘ میں نے محمد دین سے کہاکہ اگر اس نے اپنی مشین کی قیمت دو ہزار دو سو کی جگہ پانچ ہزار روپے درج کی ہوتی تو بورڈ اسے ضرور معاوضہ دے دیتا کیونکہ اس کے کاغذات بڑے صاف اور سچے ہیں‘ اس نے جواب دیا ” اچھا میری قسمت‘ قیمت ہی دو ہزار دو سو روپے ہے تو میں پانچ ہزار کیسے لکھ دیتا؟“ میں نے کہا تم نے یہ مشین آٹھ برس پہلے خریدی تھی اب تو قیمتیں بڑھ گئی ہیں‘ اب تو اسکی قیمت پانچ ہزارسے اوپر ہوگی‘ محمد دین ”صاحب! آپ بھی بڑے بھولے ہیں پرانی ہو کر تو مشین کی قیمت گھٹتی ہے بڑھا نہیں کرتی‘ محمد دین کو ہم کچھ نہ دے سکے لیکن وہ ہمیں بہت کچھ دے گیا صبح سے لیکر شام تک ہمارے بورڈ کو جھوٹ‘ فریب اور لالچ کے جس طوفان بے تمیزی کاسامنا کرنا پڑتا تھا اس ماحول میں محمد دین جیسے انسان دیانت ‘امانت اور پاکیزگی کے وہ ستون تھے جن کی برکت سے قومیں زندہ رہتی ہیں اور پروان چڑھتی ہیں۔