اسلام آباد: نائب وزیراعظم اور وزیرخارجہ اسحاق ڈار نے کہا ہے کہ اسلامی تعاون تنظیم (ٓو آئی سی) کے اجلاس میں ہماری تجویز پر عالمی سطح پر پیش آنے والے اسلاموفوبیا کے واقعات کے حوالے سے نمائندہ خصوصی کا تقرر ہوا۔
اسلام آباد میں پریس کانفرنس میں نائب وزیراعظم اور وزیرخارجہ اسحاق ڈار نے کہا کہ افریقی ملک گیمبیا میں اسلامی تعاون تنظیم (او آئی سی) کا اجلاس ہوا جہاں پاکستان کی نمائندگی کی اور 57 ممالک کے فورم میں وزیراعظم کے بجائے میں نے بھرپور نمائندگی کی۔
انہوں نے کہا کہ اجلاس میں مرکزی ایجنڈے کے تین نکات تھے، جن میں غزہ پر مسلمان بہن بھائیوں کے ساتھ جو کچھ ہو رہا ہے اس کے لیے بھرپور باہمی تعاون اور جامع فیصلہ کرنا تھا۔
وزیرخارجہ نے کہا کہ غزہ میں فوری جنگ بندی، بلاامتیاز فورس کا استعمال روکنے اور محصور فلسطینیوں کو انسانی بنیاد پر امداد پہنچانے کے لیے کوششوں کا مطالبہ کیا اور اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کو اپنی قرارداد پر عمل درآمد پر زور دیا گیا۔
ان کا کہنا تھا کہ فلسطینی علاقوں میں اسرائیلیوں کی آبادکاری روکنے اور مقامی فلسطینیوں کے اثاثوں پر قبضے سے روکا جائے اور جب تک فلسطین کو 1967 کی سرحد کے مطابق آزاد ریاست تسلیم نہیں کیا جاتا جس کا دارالحکومت القدس نہیں ہوگا تو فلسطین کا مسئلہ حل نہیں ہوگا۔
اسحاق ڈار نے کہا کہ میرا دوسرا ایجنڈا مسئلہ کشمیر تھا اور تیسرا ایجنڈا عالمی سطح پر بڑھتے ہوئے اسلاموفوبیا کے واقعات کے خلاف ہم خیال ممالک کا لائحہ عمل تیار کرنے کے لیے بات کرنی تھی اور ہماری ٹیم نے اپنی ذمہ داری نبھائی۔
نائب وزیراعظم نے کہا کہ اجلاس کے شرکا کو آگاہ کیا کہ بھارت نے مقبوضہ کشمیر میں بدترین حالات پیدا کیے ہیں اور وہاں کے حالات غزہ اور فلسطین سےت مختلف نہیں ہیں۔
انہوں نے کہا کہ ہم نے او آئی سی سے مطالبہ کیا کہ وہ بھارت کو قائل کرے کہ وہ 5 اگست 2019 کے یک طرفہ اقدامات واپس لے اور اس کے نتیجے میں کیے گئے اقدامات بھی ختم کرے، انسانی حقوق کی خلاف ورزیاں فوری طور پر روک دے اور یاسین ملک سمیت تمام کشمیری قیدیوں کو رہا کرے۔
ان کا کہنا تھا کہ او آئی سی سے مطالبہ کیا کہ وہ بھارت سے کہے کہ وہ غیرکشمیریوں کو کشمیر میں پراپرٹی خریدنے، رہائش اور ووٹ کا حق نہ دے، ایمرجنسی قانون اور کشمیر کے شہروں سے فوج واپس لے کر بین الاقوامی میڈیا کو وہاں سے آزادانہ رپورٹنگ کی اجازت دے۔
اسحاق ڈار نے کہا کہ اوآئی سی کے جموں و کشمیر پر رابطہ گروپ کا اجلاس نہیں ہوا تھا لیکن ہمارے وفد نے پہلے ہی اجلاس میں سیکریٹری جنرل سے درخواست کیا کہ سائیڈ لائن پر کشمیر پر اجلاس ہونا چاہیے اور دوست ممالک کے وزرائے خارجہ سے ملاقات میں بھی ان سے اس حوالے سے بات کی۔
انہوں نے کہا کہ ہماری کوششوں سے جموں و کشمیر رابطہ گروپ کا اجلاس ہوا اور اپنا مؤقف وہاں رکھ کر اپنی قومی ذمہ داری نبھائی۔
نائب وزیراعظم نے کہا کہ او آئی سی کے اجلاس میں اسلاموفوبیا پر بات کی اور اس کے حل کے لیے تجاویز بھی دیں کہ دنیا کے سوشل میڈیا گروپس سے دیگر مذاہب کے خلاف مواد ہٹوا دیا جاتا ہے تو ہم 57 اسلامی ممالک اپنے دین کے حوالے سے ہونے والی بدترین مہم کو ختم کیوں نہیں کرواسکتے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ اچھی بات ہے کہ تجویز کو اعلامیے میں شامل کیا گیا اور سیکریٹری جنرل نے اسلاموفوبیا پر اپنا خصوصی نمائندہ بھی مقرر کردیا ہے، پاکستان میں تعینات ترک سفیر کو او آئی سی کا اسلاموفوبیا کے حوالے سے نمائندہ خصوصی مقرر کردیا گیا ہے۔