روزنامہ آج میں شائع ہونے والے بعض کالموں اور کتابوں سے اقتباس کیلئے قارئین کی جانب سے دوبارہ اشاعت کا کہا جاتا ہے قارئین کی پسند کو مدنظر رکھتے ہوئے آج کا شائع ہونے والی کتاب کا اقتباس پیش خدمت ہے۔
مشہور براڈکاسٹر آغا ناصر براڈ کاسٹرآغا ناصر اپنی یادداشتوں میں پاکستان ٹیلی وژن میں اپنی ملازمت کے پہلے دن کی تفصیل میں لکھتے ہیں کہ”موسم سرما کی اس خوشگوار سہ پہر ٹیلی ویژن میں اپنا پہلا دن مجھے ساری جزیات کے ساتھ یاد ہے پرانے ریڈیو اسٹیشن سے چند فرلانگ کے فاصلے پر‘ شملہ پہاڑی کے دوسری طرف ایمپریس روڈ پرریڈ یوکا نو تعمیر براڈ کاسٹنگ ہاؤس تھاریڈیو سٹیشن کے احاطے کے عقبی حصے میں جہاں گاڑیوں کے لئے بہت سے گیراج بنے ہوئے تھے ٹیلی ویژن کا عارضی شیڈ تعمیر کیاگیا تھا اسی شیڈ کے ساتھ کئی سو فٹ اونچاٹی وی ٹاور ایستادہ تھا عمارت کے صدر دروازے سے سٹوڈیو تک کا فاصلہ تقریباً تین چار منٹ کا تھا جب میں عمارت کے مین گیٹ میں داخل ہوا تو خاصی چہل پہل تھی اگلے روز ٹیلی ویژن کا افتتاح ہونے والا تھا اور لوگ تیاریوں میں مصروف تھے اسٹوڈیو کے دروازے کے پاس دھوپ میں ذرا فاصلے پر اینٹوں کے ایک ڈھیر پر میں نے ایک سانولی سلونی دلکش چہرے والی لڑکی کو بیٹھے دیکھا ہاتھ میں سکرپٹ جسے پڑھ پڑھ کر کچھ یاد کرنے کی کوشش کررہی تھی میں قریب گیا اور اس سے کہا میں اسلم اظہر صاحب سے ملنے آیا ہوں وہ بظاہر میری بات پر توجہ دیئے بغیر اسی طرح سکرپٹ یا دکرتی رہی تھوڑی دیر کے بعد وہ مجھے تکتے ہوئے بولی آپ کراچی سے آئے ہیں آپ کا نام آغا ناصر ہے آپ وہاں ریڈیو میں ڈرامے پروڈیوس کرتے ہیں میں نے بڑی خوشگوار حیرت سے لڑکی کی طرف دیکھا آپ نے ٹھیک کہا مگر آپ یہ سب کیسے جانتی ہیں وہ ہنس دی اس کی ہنسی میں کھنکھناہٹ سے مجھے ایک ’مخصوص ہنسی‘ کا خیال آیا مگر یہ یاد نہ آسکا کہ وہ کس کی ہنسی سے ملتی ہے وہ اپنی سریلی آواز میں پھر بولی میں آپ کو جانتی ہوں میں نے کراچی ریڈیو سٹیشن پر ایک بارآپ کو دیکھاتھا جب میں ممی کے ساتھ وہاں گئی تھی میں موہنی حمید کی بیٹی ہوں کنول حمید تب مجھے اس کی مخصوص ہنسی اور آواز کی مٹھاس ایک دم سمجھ میں آگئی مگر اس سے پہلے کہ میں کچھ کہوں اس نے اپنے ہاتھ میں پکڑا ہوا سکرپٹ میری طرف بڑھا دیا یہ اناونسمنٹ سن لیں میں نے زبانی یاد کرنا ہے وہ کاغذ پر لکھا ہوا اناونسمنٹ دہراتی رہی اور میں چیک کرتا رہا سارا متن اسے ٹھیک ٹھیک یاد تھا مگر اس کے انگریزی زدہ لہجے کے سلسلے میں کچھ کہنا بے سود تھا اپنا اناؤنسمنٹ سنانے کے بعد وہ اینٹوں کے ڈھیر سے اٹھی اور مجھے ساتھ لے کر سامنے ٹی وی سٹوڈیو کے مین دروازے میں داخل ہوگئی اندر جاکر ساتھ والے کمرے کے دروازے پر ہلکی سی دستک دی پٹ کھول کر اندر جھانکا اور آواز لگائیAslam you have a guest کنول حمید کے اس چھوٹے سے فقرے نے مجھے ٹیلی ویژن کی اس نئی آباد ہونے والی دنیا کے ماحول سے بڑی حد تک آشنا کرادیا جہاں ایک نوعمر لڑکی اپنے سے کئی سال بڑے آدمی کو جو اس کا افسر اعلیٰ تھا اس کے پہلے نام سے اس طرح پکار سکتی ہے وہ یقینا اس ماحول سے بالکل مختلف تھا جو میں ریڈیو پاکستان کے سرکاری محکمے میں چھوڑ کر آیا تھا بعد میں جب میں ٹی وی کے دفتری ساتھیوں سے ملا تو میں نے جان لیا کہ یہ لوگ بڑے روشن خیال اور ترقی پسند قسم کے ہیں مجھے یہ ماحول پاکستان کے سرکاری دفتروں کی بجائے لندن کے ٹیلی ویژن ٹریننگ سنٹر سے زیادہ قریب محسوس ہوا جہاں سے میں حال ہی میں تربیت حاصل کرکے واپس آیا تھا“اس منتخب اقتباس کا حاصل مطالعہ یہ ہے کہ زندگی تیزی کے ساتھ گزرتی ہے اور جس دن کو کوئی اپنی پیشہ ورانہ زندگی کا پہلا دن قرار دیتا ہے وہ پھر اس قدر دور چلا جاتا ہے کہ اس پر وقت کی گرد پڑجاتی ہے اور بہت کم لوگوں کو پھر وہ پہلا دن یا ہوتا ہے تاہم ماضی کے ساتھ جڑے رہنے اور اسے مستقبل کا زینہ بنانے والے جانتے ہیں کہ کسی بھی مقام پر پہلے دن کی کیا اہمیت ہوتی ہے اس لئے وہ اسے کبھی نہیں بھولتے۔