ایران کے صدر اور وزیر خارجہ کی ہیلی کاپٹر حادثے میں افسوسناک ہلاکت کو اسلامی ممالک میں دردمندی اور رنج و الم کے جذبات کے ساتھ برتا گیا ہے‘ شاید ہی کوئی ایسا اسلامی ملک ہو جس نے ان ممتاز رہنماؤں کی تدفین کے موقع پر اعلیٰ سطح کے وفود نہ بھیجے ہوں۔ پاکستان کے وزیر اعظم شہباز شریف کے علاوہ دیگر کئی مسلمان ممالک کے سربراہوں نے بھی تہران جاکر سپریم لیڈر آیت اللہ خامنہ ای سے تعزیت کی۔اسلامی دنیا کے اس مشفقانہ رد عمل کے برعکس مغربی ممالک میں صدر ابراہیم رئیسی اور وزیر خارجہ امیر عبداللہیان کو پیش آنیوالے اس المناک حادثے کو بڑے مختلف انداز سے دیکھا گیا ہے۔ مغربی میڈیا کے پیش نظر اہم ترین سوال یہ ہے کہ ایران کا نیا صدر‘ اپنے پیشروابراہیم رئیسی کی طرح نظریاتی اور غیر لچکدار ہو گا یا اب کسی اعتدال پسند شخصیت کو یہ اہم منصب سونپا جائیگا۔ ایرانی ریاست کے سربراہ اور مسلح افواج کے کمانڈر انچیف آیت اللہ خامنہ ای کے لئے صدر کا انتخاب ہمیشہ سے ایک مشکل مرحلہ رہا ہے۔ سپریم کمانڈر اور صدر میں اگر مکمل طور پر نظریاتی ہم آہنگی نہ ہو تو اس کے منفی اثرات داخلی سیاست کے علاوہ خارجہ پالیسی پر بھی مرتب ہوتے ہیں۔ سابقہ صدر اکبر ہاشمی رفسنجانی کا مغرب کی طرف جھکاؤ ایران کی اسٹیبلشمنٹ کے لئے مسائل کا باعث تھا۔ ان کے بعد محمد خاتمی کی لبرل پالیسیاں بھی تہران کی قدامت پسند قیادت کے لئے نا قابل قبول تھیں۔ اسی طرح محمود احمدی نژاد کا پاپولسٹ انداز سیاست بھی حکمران اشرافیہ کو نا پسند تھا۔ حسن روحانی کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ انہوں نے 2015 ء میں امریکہ کے ساتھ نیوکلیئر معاہدہ مقتدرہ کی مرضی کے خلاف کیا تھا۔ مشرق وسطیٰ میں امریکہ کی جارحانہ سیاست اور ایران کے خلاف اس کی سخت ترین اقتصادی پابندیوں نے کئی عشروں سے ایرانی عوام کا جینا دو بھر کیا ہوا ہے۔ موجودہ صورتحال میں گذشتہ سات ماہ سے جاری اسرائیل حماس جنگ نے ایران کی مشکلات میں کئی گنا اضافہ کر دیا ہے۔ اپریل کے مہینے میں شام میں ایران کے سفارتخانے پر اسرائیل کے فضائی حملے کے جواب میں ایران کو پہلی مرتبہ براہ راست اسرائیل پر حملہ کرنا پڑا تھا۔ اس وقت امریکہ اور یورپ سمیت ساری دنیا مشرق وسطیٰ میں ایک بڑی جنگ کے امکان سے فکرمند تھی۔ ان حالات میں صدر ابراہیم رئیسی نے مکمل طور پر ایران کی قدامت پسند مقتدرہ کا ساتھ دیکر ایک نہایت مشکل وقت میں اہم کردار ادا کیا تھا۔ غزہ کے حالیہ بحران سے پہلے ہی صدر ابراہیم رئیسی کے بارے میں یہ تاثر پایا جاتا تھا کہ وہ سپریم لیڈر سے نظریاتی ہم آہنگی رکھنے کے علاوہ ان کی اطاعت گذاری کو بھی ضروری سمجھتے تھے۔ اب ان کی شہادت نے اس سوال کو جنم دیا ہے کہ کیا آیت اللہ خامنہ ای ابراہیم رئیسی ہی کی طرح کسی اطاعت گزار لیڈر کو صدارت کا منصب سونپیں گے یا کسی اعتدال پسنداور مغرب کے لئے نرم گوشہ رکھنے والی شخصیت کے صدر بننے کے امکانات موجود ہیں۔ ایران کی اسٹیبلشمنٹ کے لئے موجودہ صورتحال اس لئے نہایت پیچیدہ ہے کہ اگر آئین کے مطابق جولائی میں ہونیوالے صدارتی انتخاب میں ایک کھلا مقابلہ نہیں ہوتا اور اعتدال پسند امیدواروں کی شرکت کو ناممکن بنا دیا جاتا ہے تو پھر ایسے الیکشن میں عوام کی شرکت نہ ہونے کے برابر ہو گی۔ اس اہم صدارتی مقابلے میں اگر ووٹر کم تعداد میں شرکت کرتے ہیں تو مغربی ممالک اس کی قانونی حیثیت کو متنازعہ قرار دے دیں گے۔ ایران کی مقتدرہ مغرب کے اس رد عمل کی پرواہ تو نہ کرے گی مگر نئے صدر کے لئے بین الاقوامی سیاست میں قدم جمانا مشکل ہو جائیگا۔ یہ صورتحال ابراہیم رئیسی کی صدارت سے اس لئے مختلف ہو گی کہ وہ نہ صرف مقتدرہ کے قابل اعتماد نمائندے تھے بلکہ وہ پچاسی سالہ آیت اللہ خامنہ ای کی جانشینی کے امیدوار بھی سمجھے جاتے تھے۔ اب مغربی ماہرین کے مطابق ایران کی حکمران اشرافیہ کو سپریم لیڈر کے جانشین کا مسئلہ بھی حل کرناہو گا جو کہ صدر کے انتخاب سے کہیں زیادہ مشکل ہو گا۔ امریکہ میں کونسل آف فارن ریلیشن کے سینئر فیلو Ray Takeyh کی تحقیق کے مطابق ایران کے نئے سیاسی منظر نامے پر ایسی نوجوان قیادت چھائی ہوئی ہے جو پرانے حکمرانوں کی کرپشن سے نہ صرف نفرت کرتی ہے بلکہ اسے امریکہ مخالف انقلاب کے کامیاب نہ ہونے کا ذمہ دار بھی سمجھتی ہے۔ آیت اللہ خامنہ ای نئی نسل کی اس قیادت کو نظر انداز نہیں کرنا چاہتے۔ امریکی محقق کے مطابق سپریم لیڈر نہ صرف نئے صدر کے انتخاب میں نوجوان نسل کی پسند کو ملحوظ خاطر رکھیں گے بلکہ وہ اپنے جانشین کے لئے بھی نوجوان قیادت کو ترجیح دیں گے۔ اس نئی قیادت کا تعلق ملک کی سکیورٹی سروسز اور پاسداران انقلاب سے ہے۔ اس قیادت میں آقا تہرانی‘ مہر داد بزر پاش‘ سعید جلیلی اور آیت اللہ احمد خاتمی کے نام قابل ذکر ہیں۔ اس فہرست میں آیت اللہ خامنہ ای کے بیٹے مجتبیٰ کا نام بھی شامل ہے لیکن ایرانی انقلاب کو موروثیت کے سائے سے بچانے کے لئے اس اقدام کی مخالفت کی جا رہی ہے۔صدر ابراہیم رئیسی کی رحلت کے بعد ایران کی قیادت ایسے نوجوان رہنماؤں کو ملتی نظر آ رہی ہے جوپچھلی نسل سے زیادہ امریکہ مخالف ہوگی‘ اس کا جھکاؤ چین اور روس کی طرف زیادہ ہو گا اور یہ ملک کے اندر بھی سیاسی مزاحمت کو سختی سے کچلنے پر آمادہ ہو گی۔ مستقبل کا ایران عالمی سیاست میں کیا کردار ادا کرتا ہے اس کا صحیح اندازہ جولائی میں ہونیوالے صدارتی انتخاب سے لگایا جا سکے گا۔