ہمیں زندگی میں کبھی کبھی ایسا انسان ضرور مل جاتا ہے جس کو دیکھ کر حیرانی ضرور ہوتی ہے کہ یہ کیسا بادشاہ آدمی ہے؟ ہمارے علاقے میں ایک ڈاکیا ہے جو بڑا اچھا ہے اب تو شاید چلا گیا ہے اس کا نام اللہ دتہ ہے‘ اس جیسا خوش آدمی میں نے اپنی زندگی میں نہیں دیکھا اس کا عشق ڈاک بانٹنا اور ہر حال میں خط پہنچانا ہے‘ چاہے رات کے نو بج جائیں وہ خط پہنچا کر ہی جاتا ہے‘ وہاں علاقے میں ایک صاحب کا کتا تھا اللہ دتہ کو پتہ نہ چلا اور ایک روز اچانک اس کتے نے اس کی ٹانگ پر کاٹ لیااور اسکی ایک بوٹی نکال لی‘خیر وہ ٹانگ پر رومال باندھ کر خون میں لت پت ڈاکخانے آ گیا اسے دیکھ کر پوسٹ ماسٹر صاحب بڑے پریشان ہوئے اللہ دتہ نے انہیں ساری بات سے آگاہ کیا پوسٹ ماسٹر صاحب کہنے لگے کہ کیا تم نے کچھ لگایا بھی کہ نہیں!وہ کہنے لگا نہیں جی بس بے چارہ پھیکا ہی کھا گیا میں نے وہاں کچھ لگایا تو نہیں تھا اب وہ ناداں سمجھ رہا تھا کہ آیا پوسٹ ماسٹر صاحب یہ کہہ رہے ہیں کہ اس ٹانگ پر کتے کے کاٹنے سے پہلے کچھ لگایا ہوا تھا کہ نہیں‘ ہم اسے بعد میں ہسپتال لے کرگئے اور اسے ٹیکے ویکے لگوائے‘ وہ مجھے جب بھی یاد آتا ہے تو خیال آتا ہے کہ وہ کتنا عجیب و غریب آدمی تھا جو گھبراتا ہی نہیں تھا اور ایسے آدمی پر کبھی خواہش گھیرا نہیں ڈال سکتی‘ انسان جب بھی خوش رہنے کیلئے سوچتا ہے تو وہ خوشی کے ساتھ دولت کو ضرور وابستہ کرتا ہے اور وہ امارت کو مسرت سمجھ رہا ہوتا ہے جب یہ باتیں ذہن کے پس منظر میں آتی ہیں تو پھر خوشی کا حصول ناممکن ہو جاتا ہے ہم ایک بار ایک دفتر بنا رہے تھے اور مزدور کام میں لگے ہوئے تھے وہاں ایک شاید سلطان نام کا لڑکا تھا وہ بہت اچھا اور ذہین آدمی تھا اور میں متجسس آدمی ہوں اور میرا خیال تھا کہ کام ذرا زیادہ ٹھیک ٹھاک انداز میں ہو میں اس مزدور لڑکے کا کچھ گرویدہ تھا ہم دوسرے مزدوروں کو تیس روپے دیہاڑی دیتے تھے لیکن اسے چالیس روپے دیتے تھے وہ چپس کی اتنی اچھی رگڑائی کرتا تھا کہ چپس پر کہیں اونچ نیچ یا دھاری نظر نہیں آتی تھی۔ بچپن میں ایک بار
بادوباراں کا سخت طوفان تھا اور جب اس میں بجلی شدت کے ساتھ کڑکی تو میں خوفزدہ ہوگیا ڈر کے مارے تھر تھر کانپ رہا تھا میری ماں نے میرے اوپر کمبل ڈالا اور مجھے گود میں بٹھالیا‘تو محسوس ہوا گویا میں امان میں آگیا ہوں‘ میں ماں کے سینے کیساتھ لگ کر سوگیا پھر مجھے پتا نہیں چلا کہ بجلی کس قدر چمکتی رہی‘ یا نہیں یہ ایک بالکل چھوٹا سا واقعہ ہے اور اسکے اندر پوری دنیا پوشیدہ ہے یہ ماں کا فعل تھا جو ایک چھوٹے سے بچے کیلئے‘ جو خوفزدہ ہوگیا ہے۔ میں جب نوسال کا ہوا تو میرے دل میں ایک عجیب خیال پیدا ہوا کہ سرکس میں بھرتی ہوجاؤں اور کھیل پیش کروں‘ کیونکہ ہمارے قصبے میں ایک بہت بڑا میلا لگتا تھا اور اس میں بڑے بڑے سرکس والے آتے تھے‘ مجھے وہ سرکس دیکھنے کا موقع ملاجس سے میں بہت متاثر ہوا جب میں نے اپنے گھر میں اپنی یہ خواہش بیان کی کہ میں سرکس میں اپنے کمالات دکھاؤں گا تو میری نانی ہنسی اور کہنے لگیں‘ ذرا شکل تو دیکھو! یہ سرکس میں کام کریگا میری ماں نے بھی کہا‘دفع کرتو بڑا ہو کر ڈپٹی کمشنر بنے گا تو نے سرکس میں بھرتی ہوکرکیا کرنا ہے اس پر میرا دل بڑا بجھ سا گیا میرے والد سن رہے تھے انہوں نے کہا کہ نہیں‘کیوں نہیں؟ اگر اسکی صلاحیت ہے تو اسے بالکل سرکس میں ہونا چاہئے‘ انہوں نے صرف مجھے اجازت ہی نہیں دی بلکہ تارکول کا ایک ڈرم‘ اس کو لال‘نیلا اور پیلا پینٹ کرکے بھی لے آئے اور کہنے لگے اس پر چڑھ کر آپ ڈرم کو آگے پیچھے رول کیا کریں اس پر آپ کھیل کرینگے تو سرکس کے جانباز کھلاڑی بن سکیں گے‘ چنانچہ میں اس ڈرم پر پریکٹس کرتا رہا میں نے اس پراس قدر اچھی پریکٹس کی کہ میں اس ڈرم کو اپنی مرضی کے مطابق کہیں بھی لے جا سکتا تھا پھر میں نے اس ڈرم کے اوپر چڑھ کر ہاتھ میں تین گیندیں ہوا میں اچھا لنے کی پریکٹس کی‘ میرا ایک دوست تھا‘ محمد رمضان اس کو بھی میں نے پریکٹس میں شامل کرلیا وہ مجھ سے بھی بہتر کام کرنے لگا بجائے گیندوں کے وہ تین چھریاں لیکر ہوا میں اچھال سکتا تھا ہم دونوں ڈرم پر چڑھ کر اپنا یہ سرکس لگاتے ایک ہماری بکری تھی اس کو بھی میں نے ٹرینڈ کیا وہ بکری بھی ڈرم پر آسانی سے چڑھ جاتی ہم یہ سرکس کرتے اور میرے اباجی ایک روپے کا ٹکٹ خرید کرتماشا دیکھتے ہمارا ایک ہی تماشائی ہوتا تھا۔ (اشفاق احمد کے نشر پروگرام سے اقتباس)