ہم بچپن میں جنگل میں جاکر یا ویران اور گرے پڑے گھروں میں سانپوں کی کینچلیاں اکٹھی کرتے تھے‘ کیا آپکو سانپوں کی کینچلیوں کا پتہ ہے؟ سانپ ایک خاص وقت پر سو جاتا ہے اور اس کے جسم کے اوپر ایک پلاسٹک کے شاپر بیگ کی طرح کی باریک کھال یا کینچلی چڑھ آتی ہے اور اس کینچلی کے اندر رہ کر Hibernate کرتا ہے‘ تب نہ وہ سانس لیتا ہے‘ نہ کھانا کھاتا ہے‘ بالکل مردہ یا سدھ بدھ ہو کے پڑارہتاہے‘میں اس اکانومک ورلڈ میں جب بھی کینچلی دیکھتا ہوں تو میں غور کرتاہوں کہ ہم سانپ ہیں جو اکنامکس یا پیسے کی دوڑ کے اندر اپنے بدن پر کینچلی چڑھا کے خاموش پڑے ہوئے ہیں‘ ہم بے حس و حرکت ہیں اور ہمارا کوئی بس نہیں چلتا۔ ہمیں کنزیومر گڈز بنانیوالی کمپنیاں جس طرح چاہتی ہیں استعمال کرتی ہیں اور کرتی چلی آرہی ہیں۔ خواتین و حضرات جس بات سے آپ خوفزدہ ہیں زیادہ دیر تک چل نہیں سکے گی کیونکہ ایک وقت ایسا آتا ہے جب سانپ کو اپنی گروتھ کیلئے اس کینچلی کے اندر سے نکلنا پڑتا ہے اور وہ کمال سے اور بڑی عجیب و غریب حرکات و سکنات کرکے اپنے بدن کو پرانی ٹوٹی دیواروں سے رگڑ رگڑ اورگھسا گھسا کے باہر نکلتا ہے اور اپنی وہ کینچلی پیچھے چھوڑ جاتا ہے‘ جب وہ باہر نکلتا ہے تو وہ زندگی میں اور زندگی
کے دوسرے جانوروں کیساتھ شامل ہوتا ہے۔ سانپ جس طرح اپنی نشوونما کیلئے ایک خاص وقت پر اس خول میں سے نکلتا ہے اور باہر آکر زندگی میں شامل ہوتاہے اور نئے انداز و ڈھنگ اورنئے سرے سے سانس لیتا ہے اسی طرح ہی انسانوں کی یہ ساری بستیاں جو مجموعی طورپر اس وقت اپنی اکنامکس کی کینچلی کے اندرلپٹی پڑی ہیں۔ ان کو اپنی گروتھ کیلئے باہر نکلنا ہی پڑے گا اور یہ نکل کے ہی رہیں گی۔واقعی زندگی مصروف ہو گئی ہے واقعی اس کے تقاضے بڑے ہو گئے ہیں لیکن جب انسان انسان کیساتھ رشتے میں داخل ہوتا ہے تو سب سے بڑا تحفہ اس کا وقت ہی ہوتا ہے۔ جب آپ کسی کو وقت دیتے ہیں یا کوئی آپ کو وقت دیتا ہے اپنا لمحہ عطا کرتا ہے تو آپ حال میں ہوتے ہیں اس کا تعلق ماضی یا مستقبل سے نہیں ہوتا‘جب آپ معمولی کام کو اہمیت نہیں دیتے اور لمبا سا منصوبہ بنا کر بیٹھ جاتے ہیں اپنا ذاتی اور انفرادی تو پھر آپ سے اگلا کام چلتا نہیں‘ کافی
عرصہ پہلے میں چین گیا تھا یہ اسوقت کی بات ہے جب چین نیا نیا آزاد ہوا تھا‘ہم سے وہ ایک سال بعد آزاد ہوا ان سے ہماری محبتیں بڑھ رہی تھیں اور ہم ان سے ملنے چلے گئے‘ افریقہ اور پاکستان کے کچھ رائٹر چینی حکام سے ملے‘ایک گاؤں میں بہت دور پہاڑوں کی اوٹ میں کچھ عورتیں بھٹی میں دانے بھون رہی تھیں‘ دھواں نکل رہا تھا‘ میرے ساتھ شوکت صدیقی تھے کہنے لگے یہ عورتیں ہماری طرح سے ہی دانے بھون رہی ہیں جب ہم ان کے پاس پہنچے تو دو عورتیں دھڑا دھڑ پھوس، لکڑی جو کچھ ملتا تھا بھٹی میں جھونک رہی تھیں اور کڑاہے میں کوئی لیکوڈ سا تیار کر رہی تھیں ہم نے ان سے پوچھا کہ آپ یہ کیا کر رہی ہیں؟ تو انہوں نے کہا کہ ہم نے سٹیل بنانے کا ایک طریقہ اختیار کیا ہے کہ کس طرح سے سندور ڈال کرلوہے کو گرم کرنا ہے۔ یہ عورتیں صبح سے شام تک محنت اور جان ماری کیساتھ سٹیل کا ایک ”ڈلا“یعنی پانچ چھ سات آٹھ سیر سٹیل تیار کر لیتیں‘ انہوں نے بتایا کہ ہمیں جس چیز کی ضرورت ہوتی ہے ہم اس سٹیل کے بدلے لے لیتے ہیں میں اب بھی کبھی جب اس بات کو سوچتا ہوں کہ ان کی کیا ہمت تھی ان کو کس نے ایسے بتا دیا کہ یہ کام ہم کریں گی تو ملک کی کمی پوری ہوگی چھوٹا کام بہت بڑا کام ہوتا ہے اسکو چھوڑ انہیں جا سکتا جو کوئی اسے انفرادی یا اجتماعی طور پر چھوڑ دیتا ہے مشکل میں پڑ جاتا ہے۔ (اشفاق احمد کے نشر پروگرام سے اقتباس)