انڈیا میں نریندر مودی تیسری مرتبہ وزارت عظمیٰ حاصل کرنے میں کامیاب تو ہو گیا مگر اس کی جماعت لوک سبھا میں سادہ اکثریت بھی حاصل نہ کر سکی۔ جنوبی افریقہ میں تیس برس تک بھاری اکثریت سے حکومت کرنے والی جماعت افریکن نیشنل کانگرس مئی میں ہونیوالے انتخابات کے نتیجے میں بمشکل تمام حکومت بنانے میں کامیاب ہوئی ہے۔ برطانیہ میں چار جولائی کو ہونیوالے انتخابات میں ایک پاپولسٹ لیڈر کی مقبولیت میں تیزی سے اضافہ ہو رہا ہے۔ ان تینوں ممالک کے انتخابات میں اگر کوئی قدر مشترک ہے تو وہ یہ ہے کہ لوگ پرانے نظام سے بیزار آ چکے ہیں اوروہ ایک بڑے پیمانے پر تبدیلی چاہتے ہیں۔رواں سال میں ساٹھ ممالک میں انتخابات ہوں گے جن میں ایک ارب سے زیادہ لوگ ووٹ ڈالیں گے۔ بعض ماہرین کا کہنا ہے کہ یہ سال جمہوریت کے امتحان کا سال ہے اور اس امتحان میں اس کی ناکامی کے امکان کو مسترد نہیں کیا جا سکتا۔اس کی وجہ یہ ہے کہ گذشتہ عشرے میں اینٹی سٹیبلشمنٹ پاپولسٹ لیڈروں کی مقبولیت میں اضافہ ہو اہے اورا س کے ساتھ ہی انتخابی نتائج میں لوگوں کے اعتماد میں خاصی کمی واقع ہوئی ہے۔ سوشل میڈیا پر فیک نیوز اور سازشی تھیوریوں نے بھی جمہوری نظام کی افادیت پر سوالیہ نشان لگا دیئے ہیں۔نریندر مودی اور طیب اردوان جیسے لیڈر کل تک اپنی مقبولیت کے عروج پر تھے مگر آج وہ اتحادی جماعتوں کی مدد سے حکومت کرنے پر مجبور ہیں۔ چند ماہ پہلے کے مقبول اور کرشماتی لیڈروں نے قوم پرستی اور مذہبی منافرت کو استعمال کر کے جو طاقت حا صل کی تھی اس کا طلسم اب ٹوٹ چکا ہے۔ برطانیہ‘ بھارت‘ جنوبی افریقہ اور ترکی میں مہنگائی‘ بیروزگاری اور عدم مساوات میں اضافہ حکمرانوں کی مقبولیت میں کمی کا باعث بناہے۔ انڈیا میں بھارتیہ جنتا پارٹی اس وقت بھی سب سے بڑی جماعت ہے مگر اس نے 2019ء کے انتخابات کے مقابلے
میں بہت کم نشستیں حاصل کی ہیں۔پانچ برس پہلے سترہویں لوک سبھا کے انتخابات میں بھارتیہ جنتا پارٹی نے 303 نشستیں حاصل کی تھیں جو کہ اس مرتبہ کم ہو کر 240 رہ گئی ہیں۔ نریندر مودی کی جماعت نے حزب مخالف کی کانگرس پارٹی کے مقابلے میں اپنی انتخابی مہم پر بیس گنا زیادہ رقم خرچ کرنے کے علاوہ میڈیا پر بھی پابندیاں عائد کی ہوئی تھیں مگر اس کے باوجود اسے وہ اکثریت نہ مل سکی جو گزشتہ انتخابات میں اس نے حاصل کی تھی۔ مودی کے دس سالہ دور حکومت میں انڈیا کی معیشت نے تیزی سے ترقی کرتے ہوئے ارب پتیوں کی تعداد میں خاصا اضافہ کیا مگر اس دھن دولت کے ثمرات عام آدمی تک نہ پہنچ سکے۔ مودی کی حکومت نے کروڑوں لوگوں کو مفت گندم‘ چاول اور پانی کے کنکشن دینے کے علاوہ کسانوں کو مفت بیج اور کیش بھی دی مگر یہ سخاوتیں نوجوانوں کے لئے ملازمتوں کے مواقع پیدا کر سکیں اور نہ ہی مہنگائی میں کمی کا باعث بن سکیں۔ ان ہتھکنڈوں کے علاوہ ہندو نیشلزم‘ مسلمانوں سے نفرت کا پرچار اور ایودھیا کے رام مندر سے انتخابی مہم کا آغاز بھی نریندر مودی کو مطلوبہ نتائج نہ دے سکا۔ ترکی میں حزب مخالف اتحاد اپریل میں ہونے والے بلدیاتی انتخابات میں طیب اردوان کی جسٹس اینڈ ڈویلپمنٹ پارٹی کو شکست دینے میں کامیاب رہا ہے۔ استنبول اور انقرہ جیسے
بڑے شہروں میں شکست نے ترکی کی حکمران جماعت کی مقبولیت میں شگاف ڈال دیا ہے۔ نریندر مودی کی طرح تیسری مرتبہ انتخابی فتح حاصل کرنیوالے طیب اردوان کے لئے اتحادیوں کی حکومت میں وہ رعب اور دبدبہ نہیں ہے جو گذشتہ دو ادوار میں تھا۔ برطانیہ میں چار جولائی کو ہونیوالے انتخابات میں حکمران ٹوری جماعت کو کئی سرویز کے مطابق خفت آمیز شکست کا سامنا کرنا پڑے گا۔ ایک ماہ پہلے پاپولسٹ لیڈر Nigel Farageنے انتخابات میں حصہ لینے کا اعلان کر کے ٹوری پارٹی کو تشویش میں مبتلا کر دیا ہے‘Nigel Farage قدامت پسند ووٹروں میں مقبول ہونے کی وجہ سے ٹوری پارٹی کے ووٹروں کی ہمدردیاں حاصل کر سکتا ہے۔ اپوزیشن لیبر پارٹی گذشتہ ڈیڑھ برس سے کئی سرویز کے مطابق حکمران جماعت پر واضح سبقت رکھتی ہے۔ دو ہفتے قبل یورپی یونین کے پارلیمانی انتخابات میں فار رائٹ کی پاپولسٹ جماعتوں کی حیران کن کامیابی نے اس سوال کو جنم دیا ہے کہ کیا یورپ میں اعتدال پسند سیاست کا دور ختم ہو گیا ہے۔ان غیر متوقع نتائج کے فوراّّ بعد فرانس کے صدر ایمینول میکرون نے قبل از وقت صدارتی انتخابات(Snap Elections) کا اعلان کر دیا۔ تجزیہ نگاروں کے مطابق وہ اپنی مقبولیت اور برتری ثابت کرنے کی کوشش میں صدارت کھو بھی سکتے ہیں۔سال رواں میں دنیا بھر میں ہونیوالی سیاسی اکھاڑ پچھاڑ کے نتیجے میں ایسے پاپولسٹ حکمران بر سر اقتدار آ سکتے ہیں جو سابقہ صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی طرح جمہوری روایات پر یقین نہیں رکھتے۔ اگر فرانس‘ جرمنی‘ پولینڈ‘ سویڈن اور ڈنمارک میں پاپولسٹ لیڈر کامیابی حاصل کر لیتے ہیں تو یہ تبدیلی کا مطالبہ کرنے والی قوتوں کی ایک بڑی فتح ہو گی اور یہ ان ممالک کی سٹیبلشمنٹ کے علاوہ جمہوری نظام کے لئے بھی ایک بہت بڑا چیلنج ہو گا۔