بائیڈن کی مزاحمت اور انحراف

 ستائیس جون کے مباحثے میں صدر بائیڈن کی مایوس کن کارکردگی کے بعد ڈیموکریٹک پارٹی کے لیڈروں اور ووٹروں کی ایک بڑی تعدادان سے صدارتی مقابلے سے دستبردار ہونیکا مطالبہ کر رہی ہے لیکن انہوں نے واضح اور دو ٹوک الفاظ میں یہ مطالبہ ماننے سے انکار کر دیا ہے۔ چند روز پہلے صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوے انہوں نے کہا کہ   ”تم نے 2020 میں بھی میری شکست کی پیشگوئی کی تھی مگر میں جیت گیا۔ پھر 2022 میں تم نے کہا تھا کہ ایک سرخ لہر آئیگی اور مڈ ٹرم الیکشن میں ڈیمو کریٹک پارٹی کو بڑی شکست ہو گی۔ یہ بات بھی غلط ثابت ہوئی۔ اب میں ایک مرتبہ پھر تمہیں غلط ثابت کروں گا۔“ اسکے جواب میں انکے مخالفین نے کہا ہے کہ صدر بائیڈن زمینی حقائق سے بے خبر ہیں۔ وہ نہیں جانتے کہ کل تک جو لوگ انکے مداح تھے وہ آج انہیں ووٹ دینا نہیں چاہتے اور وہ مطالبہ کر رہے ہیں کہ کسی نئے لیڈر کو موقع دیا جائے۔ ممتاز صحافی Peter Baker نے سات جولائی کی نیوز رپورٹ میں لکھا ہے ”ہر صدر اپنے بنائے ہوے ایک bubble میں رہتا ہے۔پنسلوینیا ایونیو کا محفوظ قلعہ اسے بیرونی دنیا سے الگ تھلگ کر دیتا ہے۔ اس قلعے میں وہ ایسے مشیروں اور سیکرٹ سروس ایجنٹوں کے جمگھٹے میں ہوتا ہے جو اسے ہر لمحہ یہ یقین دلاتے ہیں کہ وہ اس دنیا کی اہم ترین شخصیت ہے۔“ ظاہر ہے کہ یہ مشیر صدر امریکہ سے یہ تو نہیں کہہ سکتے کہ اسکی شکست کے آثار واضح طور پر نظر آ رہے ہیں اس لیے اسے صدارتی مقابلے سے دستبردار ہو جانا چاہئے۔ صدر بائیڈن کے حالیہ بیانات سے یہ پتہ چلتا ہے کہ سب کچھ معمول کے مطابق ہے‘ مباحثہ اتنا زیادہ برا نہ تھا‘ Opinion Polls  کے نمبرز غلط ہیں‘ مایوس کن پیش گوئیاں انہی پنڈتوں کی ہیں جو پہلے بھی اسی قسم کی فالیں نکالتے رہے ہیں۔صدر بائیڈن نے یہ بھی کہا کہ اگر کوئی یہ سمجھتا ہے کہ وہ ڈیمو کریٹک پارٹی میں ان سے زیادہ مقبول ہے تو وہ اگلے ماہ کے کنونشن میں انکا مقابلہ کر سکتا ہے۔ صدر بائیڈن کی ان یقین دہانیوں کے باوجود بھی جب شورو غو غا میں کمی نہ ہوئی تو انہوں نے پانچ جولائی کو  ABCچینل کے معروف صحافیGeorge Stephanopoulos  کو ایک انٹرویو دیا۔ بائیس منٹ کے اس پرائم ٹائم مکالمے میں زیادہ تر سوالات صدر بائیڈن کی ذہنی اور جسمانی استطاعت کے بارے میں تھے۔ ان سے بار بار پوچھا گیا کہ کیاوہ اگلے چارسال تک مستعدی کیساتھ صدارتی ذمہ داریاں نبھا سکیں گے۔ ظاہر ہے کہ انہوں نے ان سوالات کا جواب اثبات ہی میں دینا تھا۔ ان سے یہ بھی پوچھا گیا کہ کیا وہ اپنا   Neurological معائنہ(نظام اعصاب کا سائنسی مطالعہ) کرانا چاہیں گے۔ اسکے جواب میں انہوں نے کہا کہ میں ہر روز مشکل فیصلے کرتا ہوں مجھے ایسے کسی معائنے کی کوئی ضرورت نہیں۔ ایک سوال یہ بھی تھا کہ ”جناب صدر! لوگ آپ سے محبت کرتے ہیں اور وہ ہمیشہ اس لیے آپکے مشکور رہیں گے کہ آپ نے 2020 کے الیکشن میں ڈونلڈ ٹرمپ کو شکست دی تھی۔ وہ سمجھتے ہیں کہ ایک صدر کی حیثیت سے آپکی کارکردگی نہایت شاندار تھی مگر وہ آپکے اور اپنے ملک کے بارے میں فکرمند ہیں اور وہ یہ سمجھتے ہیں کہ آپ یہ الیکشن نہیں جیت سکتے۔ وہ یہ چاہتے ہیں کہ آپ پر وقار طریقے سے رخصت ہو جائیں۔ آپ نے اگر ایسا کیا تو وہ آپکے اس فیصلے کو سراہیں گے۔ آپ انہیں کیا کہنا چاہتے ہیں۔“ اسکے جواب میں صدر بائیڈن نے کہا کہ لوگوں کی ایک بڑی اکثریت ایسا نہیں سوچتی۔ یہ تاثر ایسے لوگوں کا ہے جو ہمیشہ سے میرے بارے میں ایک منفی رائے رکھتے ہیں۔اس انٹرویو میں یہ بھی پوچھا گیا کہ”آپ اگر ٹرمپ سے شکست کھا گئے اور جنوری میں اگر آپ کو وائٹ ہاؤس انہیں واپس دینا پڑا تو آ پ کیا سوچیں گے۔“ صدر بائیڈن نے کہا کہ میں اگر اپنی پوری کوشش کروں‘ اور میں یقینا ایسا کروں گا تو میرے لیے یہ مقابلہ اسی جدو جہد کے بارے میں ہو گا۔ اس انٹرویو کو ایک ناکام کوشش قرار دیتے ہوے بعض ناقدین نے کہا ہے کہ یہ الیکشن ہر گز جو بائیڈن کے بارے میں نہیں ہے بلکہ یہ اس ملک کے مستقبل کے بارے میں ہے۔ اس مقابلے میں یہ طے ہو گا کہ امریکہ میں جمہوریت کا مستقبل کیا ہے۔ ڈونلڈ ٹرمپ نے اگر چار سال بعد وائٹ ہاؤس چھوڑنے سے انکار کر دیا تو کیا ہو گا۔ وہ پہلے بھی ایسا کر چکا ہے۔ ناقدین کے مطابق یہ الیکشن اس بارے میں ہے کہ امریکہ مستقبل میں ایک جمہوری ملک ہو گا یا مطلق العنان۔ George Stephanopoulos نے صدر بائیڈن سے کہا کہ اس نے کبھی کسی ایسے صدر کو دوبارہ منتخب ہوتے نہیں دیکھا جسکی مقبولیت کا گراف36فیصد ہو۔ صدر بائیڈن نے کہا کہ یہ پول نمبرز غلط ہیں‘ وائٹ ہاؤس کے سرویز کے مطابق انکی مقبولیت اس سے کہیں زیادہ ہے۔ یہ انٹرویو اس لحاظ سے دیکھنے والوں کے لیے صبر آزما تھا کہ اس میں ایک معمر شخص کو اسکی ذہنی صلاحیتوں کے بارے میں کریدا جا رہا تھا۔ اس سے بڑھ کر افسوسناک بات یہ ہے کہ دو بڑی سیاسی جماعتوں نے ایسے صدارتی امیدوار منتخب کئے ہیں جن میں سے ایک سزا یافتہ مجرم ہے اور دوسرے کی ذہنی استبداد مشکوک ہے۔ دونوں صورتوں میں یہ ملک غلط ہاتھوں میں جاتا ہوا نظر آ رہا ہے۔ آخری امید یہی ہے کہ انیس اگست کو شکاگو میں ہونیوالے ڈیمو کریٹک پارٹی کے کنونشن میں کوئی نیا امیدوار سامنے آ جائے۔