برطانیہ کا نیا وزیراعظم


برطانیہ میں لیبر پارٹی کا واضح اکثریت سے جیت جانا کوئی حیرانی کی بات نہیں‘ برطانوی عوام ٹوری پارٹی کے 14سالہ طویل دور حکومت سے تنگ آئے ہوئے تھے‘صاف نظر آ رہا تھا کہ برطانیہ کی گرتی ہوئی معیشت اور بڑھتے ہوے مسائل کا حل قدامت پسند حکمران جماعت کے پاس نہ تھا‘ لوگ تبدیلی چاہتے تھے اور تبدیلی آ گئی ہے مگر اب سوال یہ ہے کہ کیا نئے وزیر اعظم Keir Starmer سرکاری اداروں میں بد عنوانی اور بد انتظامی ختم کر کے خوشحالی کے سفر کا آغاز کر سکیں گے؟ہاﺅس آف کامنز کی 650میں سے 412 نشستیں حاصل کر لینا ایک بڑی کامیابی ہے‘ کیئر سٹارمر نے چار جولائی کے الیکشن میں فتح حاصل کرنے کے بعد کہا ہے کہ لوگوں نے انہیں واضح مینڈیٹ دیا ہے اور وہ اسے استعمال کرکے تبدیلی لانے کا وعدہ پورا کرینگے‘ حلف اٹھانے کے فوراً بعد انہوں نے 10 ڈاﺅننگ سٹریٹ کے باہر اپنے حامیوں سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ وہ جانتے ہیں کہ ان کے پاس وقت بہت کم ہے اور انہوں نے بہت جلد اپنے انتخابی وعدے پورے کرنے ہیں‘ ان وعدوں میں سرکاری اداروں میں تساہل کا خاتمہ‘ معاشی ترقی‘ نیشنل ہیلتھ سروس کی فعالیت میں اضافہ ‘ یورپی یونین سے بہتر تعلقات کے ایک نئے دور کا آغاز اورحکومت پر لوگوں کے کھوئے ہوئے اعتماد کو بحال کرنا ہے‘ لیبر پارٹی کا 33.8 فیصد ووٹ حاصل کر لینا یقینا ایک بڑی کامیابی ہے لیکن ٹوری پارٹی نے ان برے حالات میں بھی 26.7 فیصد ووٹ حاصل کئے ہیں‘ حیران کن بات یہ ہے کہ لبرل 
ڈیمو کریٹس نے 12فیصد ووٹ لیکر71سیٹیں حاصل کی ہیں‘ اس جماعت نے 2019 ءکے الیکشن میں صرف 8 نشستیں جیتی تھیں‘ اس الیکشن کا ایک اہم نتیجہ یہ ہے کہ پاپولسٹ لیڈر اور شعلہ بیان مقرر Nigel Farageکی Reform Party نے پانچ سیٹیں حاصل کی ہیں‘ماہرین کی رائے میں کئیر سٹارمر اگر عوام کی توقعات پر پورا نہیں اترتے تو Nigel Farageٹوری پارٹی کے ساتھ مل کر پاپولسٹ سیاست کو فروغ دے سکتے ہیں‘ یورپ کے دیگر ممالک کی طرح برطانیہ کا بھی پاپولسٹ سیاست کی لپیٹ میں آ جانا کوئی اچھنبے کی بات نہ ہو گی‘ کیئرسٹارمر کی کامیابی کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ انہوں نے بائیں بازو کی پالیسیوں کو معتدل بنا کرلیبر پارٹی کو ایک سنٹر لیفٹ جماعت بنا دیا‘ یوں کسی بھی جماعت سے تعلق نہ رکھنے والے لوگ اور قدامت پسند وںکیلئے بھی لیبر پارٹی کی حمایت کرنا مشکل نہ رہا‘ایک رائے یہ بھی ہے کہ دوسرے یورپی ممالک کی طرح برطانیہ میں بھی لوگ بر سر اقتدار جماعت سے تنگ آئے ہوئے تھے ‘اسلئے انہوں نے لیبر پارٹی کو ووٹ دئیے‘ 
بعض تجزیہ نگاروں کی رائے میں کیئر سٹارمر نے لیبر پارٹی کو ایک سنٹر لیفٹ پارٹی بنا کر الیکشن تو جیت لئے ہیں مگر انہیں فرانس کے صدر ایمینول میکرون کی طرح ناکامی کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔ میکرون نے بھی بائیں بازو کی اعتدال پسند سیاست کے ذریعے مسائل حل کرنے کی کوشش کی مگر انہیں ناکامی کا سامنا کرنا پڑا۔ اسکے نتیجے میں یورپی یونین کے انتخابات میں فرانس کی پاپولسٹ لیڈر Marine Le pen کی جماعت National Rally کو نمایاں کامیابی حاصل ہوئی۔ اس صورتحال کے تدارک کیلئے میکرون نے قبل از وقت الیکشن کروا کر اپنی برتری ثابت کرنے کی کوشش کی مگر اس میں بھی انہیں ناکامی کا سامنا کرنا پڑا۔ اس الیکشن کے پہلے راﺅنڈ میں Marine Le Pen کو واضح برتری حاصل ہوئی اور یہ توقع کی جانے لگی کہ وہ دوسرے راﺅنڈ میں بھی کامیابی حاصل کر کے اپنی مرضی کا وزیر اعظم لے آئیں گی۔ اس منظر نامے کو بھانپتے ہوے فرانس کی بائیں بازو کی جماعتوں نے اتحاد کر کے دوسرے مرحلے میں نیشنل ریلی کو ایک بڑی شکست سے دوچار کر دیا یوں فرانس ایک پاپولسٹ حکومت کی انتہا پسند سیاست کے نرغے میں جانے سے بچ تو گیا مگر اسے پہلے سے درپیش غیر یقینی کے سیاسی بحران سے نجات نہ مل سکی۔ صدر میکرون کے قبل از وقت الیکشن کرانے کی چال الٹ پڑ گئی اب انہیں فار رائٹ کی بجائے فار لیفٹ کی جماعتوں 
کے مطالبات کا سامنا ہے‘ برطانوی معیشت کے سنگین مسائل کا ذکر کرتے ہوئے New Left Review کے ایڈیٹر Oliver Eagleton نے لکھا ہے کہ برطانیہ کو معاشی بحران سے نجات دلانا کئیر سٹارمر کے بس کی بات نہیں۔ انکے چھ جولائی کے مضمون کا عنوان توجہ طلب ہے‘ Britain Is Not Well. Keir Starmer Wont Heal It. یعنی برطانیہ ٹھیک نہیں ہے اور کیئر سٹارمر اس کا علاج نہیں کر سکتا۔Oliver Eagleton نے لکھا ہے کہ دائیں اور بائیں بازو کے تجزیہ نگار یہ کہتے ہیں کہ کئیر سٹارمر کا کوئی نظریہ یا اصول نہیں ہے۔ He is a man who stands for nothing, with no plans and no principles یعنی سٹارمر کسی بھی نظرئیے کی نمائندگی نہیں کرتا‘ اس کا کوئی منصوبہ اور کوئی اصول نہیں ہے۔ مضمون نگار کی رائے میں سٹارمر کی طرح اس کی حکومت کی بھی کوئی سمت نہ ہو گی۔ کیئر سٹارمر کے حامی تجزیہ نگاروں کا کہنا ہے کہ اسکی سیاست متوازن اور مربوط ہے ‘ اسکا تعلق وکالت کے پیشے سے ہے اور اس بات میں کوئی شک نہیں کہ وہ ریاست برطانیہ کا پکا وفادار ہے۔ اسکے حامی کہتے ہیں کہ سٹارمر اپنے قانونی اور سیاسی کیرئر میں ہمیشہ ریاست کے مفادات سے وابستہ رہا ہے‘ اسکے جواب میں ناقدین کہتے ہیں کہ سٹارمر Status Quo کا حامی ہے اور لوگ تبدیلی چاہتے ہیں۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ برطانیہ کا نیا وزیر اعظم سٹیبلشمنٹ کا وفادار رہتے ہوئے عوام کی توقعات کے مطابق تبدیلی لا سکتا ہے یا نہیں؟