برطانیہ کے ہنگامے اور سیاسی کلچر

برطانیہ میں فسادات کے دوران ہونیوالے ہنگاموں‘ تشدد اور گرفتاریوں کی خبریں اور ویڈیو کلپس خاصے چونکا دینے والے ہیں۔ یہ ہنگامے ملک کے شمال مغرب میں واقع ساحلی شہر ساؤتھ پورٹ میں اس وقت شروع ہوئے جب 29 جولائی کو ایک ڈانس سٹوڈیو میں ایک نوجوان نے چاقو کے پے در پے وار کر کے تین لڑکیوں کو ہلاک اور آٹھ کو زخمی کر دیا۔ اس حادثے کے فوراّّ بعد مسیحی انتہا پسندوں نے سوشل میڈیا پر یہ گمراہ کن خبر پھیلا دی کہ اس جرم کاارتکاب ایک ایسے مسلمان نوجوان نے کیا ہے جو چند ماہ پہلے کشتی پر انگلش چینل (بحر اوقیانوس کا وہ آبی راستہ جو فرانس کے شمالی اور برطانیہ کے جنوبی حصے کو ملاتا ہے)عبور کر کے آیا تھا‘ اس کے بعد پانچ اگست تک ملک بھر میں ہونیوالے ان ہنگاموں میں بے قابو ہجوم نے کئی مسجدوں پرحملے کیے‘ سرکاری املاک کو نقصان پہنچایا‘ دکا نوں کو لوٹا اورسکیورٹی فورسز کے کئی افراد کو زخمی کیا۔ بی بی سی نیوز کے مطابق یہ بد امنی برطانیہ کے چھوٹے بڑے پینتیس شہروں کے علاوہ شمالی آئرلینڈتک پھیل گئی۔National Police Chief Councilکے اعدادو شمار کے مطابق اب تک 1024 افراد کو گرفتار کیا گیا ہے اور 575 ملزموں پر مقدمات قائم کر دئیے گئے ہیں۔ درجنوں افراد تیز رفتار مقدمات کے بعد جیل بھیج دئیے گئے ہیں۔ وزیر اعظم Keir Starmer  کیونکہ خود بھی طویل عرصے تک وکیل استغاثہ رہ چکے ہیں اس لئے وہ نظام انصاف کو متحرک کرنے کا طریقہ جانتے ہیں۔ مبصرین کے مطابق جب انصاف ہوتا نظر آتا ہے‘ اس تناظر میں اس کامطلب یہ ہے کہ جب مجرم جیلوں میں جاتے ہوئے نظر آتے ہیں تو پھر بلوائیوں کے حوصلے پست ہونے لگتے ہیں۔ برطانیہ کے قانون کے مطابق اٹھارہ سال سے کم عمر والے ملزموں کے نام مشتہر نہیں کیے جاتے مگر ساؤتھ پورٹ کے جج نے کہا کہ ایک جھوٹی اور بے بنیاد خبر کے نتیجے میں ہونیوالے ہنگاموں کے تدارک کے لئے ضروری ہے کہ ملزم کا نام بتا دیا جائے تا کہ لوگ جان لیں 
 کہ وہ مسلمان نہیں ہے‘ اس سترہ سالہ ملزم کا نام Axel Rudakubana ہے‘  اس کے والدین کا تعلق مشرقی افریقہ کے ملک روانڈہ سے ہے‘  وہ برطانوی شہریت رکھتے ہیں اور باقاعدگی سے چرچ جاتے ہیں‘ان کا بیٹا ویلز میں پیدا ہوااور اسی شہر میں اس نے تعلیم حاصل کی۔ ان کی اس مذہبی شناخت کے باوجود یہ نہیں کہا جا سکتا کہ ان فسادات کی اکلوتی وجہ برطانوی انتہا پسندوں کی مسلمانوں سے نفرت ہے‘اس بد امنی کی وجوہات میں تارکین وطن سے برسوں پرانی بیزاری اور برطانیہ کے دگر گوں معاشی حالات بھی شامل ہیں۔ جب لوگوں کو اسپتالوں میں جگہ نہ ملے‘  ڈاکٹروں تک رسائی مشکل ہو‘ چھوٹے شہروں اور قصبوں میں ملازمتیں نا پید ہوں تو لوگ نظام حکومت سے بد ظن ہو جاتے ہیں۔ یہ تاثر عام ہو جاتا ہے کہ یہ نظام عام آدمی کے لئے نہیں بلکہ خواص کے لئے ہے۔ کسی بھی سسٹم کو چلانے کے لئے ضروری ہوتا ہے کہ لوگ اس پر یقین رکھتے ہوں۔ عوام اضطراب اور بے یقینی کے عالم میں ہوں تو معمولی سی کوئی بھی وجہ اس قسم کے فسادات کا باعث بن سکتی ہے۔ لیبر پارٹی کی حالیہ حکومت سے پہلے قدامت پسند ٹوری پارٹی چودہ برس تک بر سر اقتدار رہی۔ اس نے اپنے دور حکومت میں تارکین وطن کے خلاف سخت اقدامات کر کے دائیں بازو کے انتہا پسندوں کو مطمئن کرنے کی کوشش کی مگر وہ بھی تارکین وطن کی آمد کو نہ روک سکی اور بالآخر سوشل میڈیا کی
 ایک گمراہ کن خبر نے جلتی پر تیل کا کام کر دیا۔برطانیہ میں مذہبی اور دائیں بازو کے انتہا پسند پہلے ہی سے آن لائن پر اکٹھے ہو چکے تھے۔ ٹوری پارٹی نے سوشل میڈیا کے طوفان بد تمیزی کو روکنے کے لئے کوئی با مقصد قانون سازی نہ کی تھی اس لئے ٹک ٹاک‘ گوگل‘ میٹا اور ایکس(سابقہ ٹویٹر) پر جھوٹی اور نفرت انگیز خبروں کی ترویج مشکل نہ تھی۔ ان پلیٹ فارمز پر تارکین وطن کے خلاف نفرت انگیزی کئی برس پہلے برطانیہ کے سیاسی کلچر کا حصہ بن چکی تھی۔ یہ جھوٹی خبر کہ قاتل چند ماہ پہلے کشتی پر بیٹھ کر آیا تھا دیکھتے ہی دیکھتے جنگل کی آگ کی طرح پھیل گئی اور اسی قسم کے کسی واقعے کے منتظر انتہا پسند فوراً حرکت میں آ گئے اور انہوں نے لوگوں کو گھروں سے نکل کر مخصوص مقامات پر جمع ہونیکی ہدایات دینی شروع کر دیں۔ اس کے بعد لوگ پورے ملک میں سڑکوں پر نکل آئے۔ اس جنون کی شدت قاتل کے نام کے سامنے آ جا نے کے بعد بھی جاری رہی۔ ان فسادات کے رد عمل میں لیبر پارٹی کے حامیوں اور مسلمانوں نے مل کر ملک بھر میں جلوس نکالے اور قوم پرستوں کی انتہا پسندی کے خاتمے کا مطالبہ کیا۔ اس آگ کو پھیلتا ہوا دیکھ کر وزیر اعظم کئیر سٹارمر نے Solihull کی مسجد میں مسلمانوں سے ملاقات کر کے انہیں اپنے تعاون کا یقین دلایا۔ان فسادات نے یہ ثابت کیا ہے کہ آن لائن دنیا آف لائن دنیا سے ملی ہوئی ہے اور ان میں سے کسی ایک دنیا میں ہونے والی ہنگامہ آرائی کسی بھی لمحے دوسری دنیا کی حدود میں داخل ہو سکتی ہے۔ ان دونوں دنیاؤں کی مخلوق کو اپنی اپنی حدود و قیود میں رکھنا اس لئے مشکل ہے کہ مغربی ممالک میں عدالتیں حکومتوں کو آزادی اظہار کے خلاف قانون سازی کی اجازت نہیں دیتیں۔ لیکن اس حقیقت کو بھی دنیا بھر میں تسلیم کر لیا گیا ہے کہ سوشل میڈیا کی گمراہ کن خبریں بہت جلد لوگوں کے جان و مال کے لئے خطرہ بن جاتی ہیں اس لئے اس بے ہنگم دنیا کو کسی ضابطہ اخلاق کا پابند کرنا ضروری ہے۔