دل میں اتر جانیوالی بات

روزنامہ آج میں شائع ہونے والے بعض کتابوں سے اقتباس کیلئے قارئین کی جانب سے دوبارہ اشاعت کا کہا جاتا ہے‘ قارئین کی پسند کو مدنظر رکھتے ہوئے آج کا شائع ہونے والا اقتباس مشہور مصنف اور براڈکاسٹر رضا علی عابدی کے نشر پروگرام کا منتخب حصہ ہے جو کہ قارئین کیلئے پیش خدمت ہے۔کسی کی آوازسن کر اس کی شکل و صورت سے متعلق تصور اکثر قائم ہوتاہے۔ معروف براڈ کاسٹر رضا علی عابدی اپنے ریڈیو پروگراموں سے متعلق لکھتے ہیں کہ ایک بار یہ ہوا کہ پورے نشرئیے کے خاتمے پر خاص خاص خبروں کا خلاصہ پڑھنے کے لئے میں سٹوڈیو کی طرف دوڑا اور سیڑھیاں تیزی سے چڑھتا ہوا سٹوڈیو میں داخل ہوا۔ اگلے ہی لمحے خلاصے کا اعلان ہوگیا۔ اب جو میں نے خاص خاص خبروں کی سرخیاں پڑھنا چاہیں توسانس اس بری طرح پھولی ہوئی تھی کہ لگتا تھا یہ میری زندگی کی آخری سرخیاں ہیں۔ خدا خدا کرکے وہ ختم ہوئیں اور سٹوڈیو کی سرخ بتی بندہوئی تو میرے ساتھی نے کہا کہ کوئی بات نہیں۔ گھبرائیے نہیں۔اتنی تاخیر سے سرخیاں کون سنتاہے۔ریڈیو پر میری آواز سن کر لوگ ذہن میں تصویریں بناتے ہوں گے اور مجھے یقین ہے کہ میری گفتگو سننے والوں کے ذہن میں میری خوشگوار تصویر ہی بنتی ہوگی۔ ان ہی دنوں مجھے کراچی جانے کا اتفاق ہوا اور مجھے پاکستان ٹیلی ویژن کے ایک پروگرام میں شرکت کا موقع ملا۔ شرکت کرکے میں واپس لندن پہنچا ہی تھا کہ کراچی سے ایک لڑکی کا خط آیا جس میں لکھا تھا کہ عابدی صاحب، آپ کو ٹیلی ویژن پر دیکھا۔ یہ صورت شکل اللہ کی بنائی ہوئی ہوتی ہے۔ اب آپ صبر کیجئے۔بے شمارسننے والے اپنے خطوں میں اصرار کیا کرتے تھے کہ آپ کبھی ہماری طرف آئیں تو ہم سے ملاقات ضرور کریں۔ کوئی مانے یا نہ مانے، میں نے ہندوستان اور پاکستان جاکر اتنے بہت سے سامعین سے ملاقاتیں کیں کہ ان کو شمار کرنا مشکل ہے۔ میں نے ہمیشہ کہا کہ یہ میرے لئے کسی سعادت سے کم نہیں کہ میرے ذہن میں سننے والے کی تصویر بہت واضح ہے۔ میں ریڈیو پر بولتا ہوں تو مجھے صاف محسوس ہوتا ہے اور اس کا نتیجہ ہے کہ براڈ کاسٹنگ کا سب سے بڑا اعجاز یہی ہے کہ بات ایک دل سے نکلے اور دوسرے دل میں اتر جائے۔ پروگرام انجمن نے سب سے بڑا کام یہ کیاکہ ہزاروں میل دور بیٹھے ہوئے سامع اور لندن سے بولنے والے صدا کاروں کو محبت کے ایک رشتے میں پرو دیا۔ پچھلے دنوں میں نے اوپن یونیورسٹی کے زیر اہتمام ہونے والے سیمینار میں یہ بات زور دے کر کہی کہ ہم نے سامعین نہیں جیتے۔ ہم نے ان کے دل جیتے۔ایک اور مقام پر رضا علی عابدی ماریشس کے سفر کے احوال بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ وہاں کے لوگ شکر اس کثرت سے پیتے ہیں کہ بس چلے تو چمچے سے نہ ڈالیں بلکہ شکردانی سے انڈیلیں‘پھر خود ہی ہنستے ہیں‘شرمندہ ہوتے ہیں اور خود ہی کہتے ہیں کہ ماریشس میں شکر کا مرض بہت عام ہے‘ یہاں کے بندر بھی ذیابیطس کے مریض ہیں‘میرا خیال تھا کہ جس طرح زمین سے گنا ابلا پڑتا ہے‘ چاروں طرف پھیلے ہوئے نیلگوں سمندر سے مچھلی ساحل پر چڑھی چلی آتی ہو گی لیکن جب کئی روز کھانے پر مچھلی نہیں ملی تو پتہ چلا کہ مہنگی بہت ہے‘ میرا خیال تھا کہیں اور چلی جاتی ہوگی‘ اس طرف نہیں آتی ہوگی لیکن ایک روز حال کھلا کہ ساری مچھلی غیر ملکی سیاح کھا جاتے ہیں‘ بڑے بڑے ہوٹلوں والے عمدہ مچھلی کے اتنے زیادہ دام لگاتے ہیں کہ مچھیرے شہروں کا رخ ہی نہیں کرتے‘شاید ان ہی کی سہولت کے خیال سے سارے بڑے ہوٹل سمندر کے کنارے بنائے گئے ہیں‘ ان کے کھانوں میں بریانی کا جواب نہیں‘ میں نے اس قسم کی بریانی ملا باری بریانی کے نام سے کھائی ہے۔ باسمتی چاول میں مرغی‘ گول آلو‘ انڈے اور ہرا دھنیا ڈالتے ہیں‘ غالباً قورمے کا مصالحہ ہوتا ہے اور مقدارمیں کافی ہوتا ہے اس لئے بریانی میں کچھ اورنہیں ملاتے۔ بس یوں ہی کھالیتے ہیں‘ اس میں کوئی شک نہیں کہ بہت مزے کی ہوتی ہے۔ماریشس میں یہ بات سوا لاکھ روپے کی ہے کہ غریب ہوں یا امیر، شادی کی تقریب میں ایک یہی بریانی کھلاتے ہیں بڑی بڑی دعوتوں کیلئے بریانی پکانے والے باورچی یہاں بھنڈاری کہلاتے ہیں‘ بعض بھنڈاریوں کی بڑی شہرت ہے کیونکہ وہ نہایت عمدہ بریانی پکاتے ہیں‘خراب بریانی پکانے والے کیلئے جزیرے میں کوئی جگہ نہیں۔
‘سناہے کہ بریانی خراب ہوجائے تو بھنڈاری چپکے سے پچھلے دروازے کے راستے بھاگ جاتا ہے۔