یادوں کا انمول اثاثہ

روزنامہ آج میں شائع ہونے والے بعض کتابوں سے اقتباس کیلئے قارئین کی جانب سے دوبارہ اشاعت کا کہا جاتا ہے‘ قارئین کی پسند کو مدنظر رکھتے ہوئے آج کا شائع ہونے والا اقتباس مشہور مصنف اور براڈکاسٹر رضا علی عابدی کے نشر پروگرام کا منتخب حصہ ہے جو کہ قارئین کیلئے پیش خدمت ہے۔
روداد سفر یا سفر نامہ وہ صنف ہے جس میں اد ب سے ذوق رکھنے والوں کے ساتھ ساتھ عام قارئین کی بھی دلچسپی اس لئے زیادہ ہوتی ہے کہ اس صنف میں لکھنے والے کے گہرے مشاہدے اور اس کے نتیجے میں ایک مخصوص مقام کے ابھرنے والے خاکے سے لطف اندوز ہونے کا موقع ملتا ہے اور ساتھ ہی ایک ان دیکھی جگہ کو چشم تصور سے مصنف کے الفاظ کے آئینے میںدیکھنے سے سیاحت کا ذوق بھی پروان چڑھنے لگتا ہے‘ معروف براڈ کاسٹر رضا علی عابدی کا شمار بھی ان مصنفین میں ہوتا ہے جنہوںنے متفرق موضوعات کو اپنی تحریروں کا موضوع بنا یا ہے۔ اپنی ایک سرگزشت میں آپ لکھتے ہےں بڑی بڑی باتیں تو سب ہی کو یاد رہتی
 ہےںمجھے ان چھوٹی باتوں سے والہانہ لگاﺅ ہے جو نہ صرف یاد رہتی ہےں بلکہ یاد آکر خوشیاں بھی دیتی ہےں‘ہماری گاڑی خانیوال پہنچ گئی کیسا جیتا جاگتا سٹیشن تھا‘ شہرکے لڑکے بن سنور کے آئے تھے اور زنانہ ڈبوں کے سامنے شوخیاں کررہے تھے مگر مجھے وہ چھوٹا لڑکا خوب یاد ہے جس نے میرے کان کے قریب آکر چائے کی آواز لگائی‘ میں نے کہا میرے لئے چائے لے آﺅ وہ خوش ہوکر چائے لینے دوڑا‘ یہ توکوئی بڑی بات نہےں دوڑتے دوڑتے اس نے کہا شکریہ۔ اتنے چھوٹے سے شہر کے چھوٹے سے لڑکے کی زبانی ایسا سچا کھنکتا ہوا لفظ سنا تو جی جھوم اٹھا‘ اتنے میں ایک درویش صفت بزرگ آگئے جن کے ہاتھوں میں جوتے پالش کرنے کا سازو سامان تھا بہت غریب تھے مگر تنگدستی کی شکایت نہےں کی پولیس والوں کے جوتے پالش کرکے ان کی ڈانٹ ڈپٹ سے محفوظ رہتے تھے‘میری جیب میںایک ایک دو دو روپے کے کچھ نوٹ تھے جو میں نے انہےں دے دیئے‘ لے کر چلے تو گئے لیکن کچھ دیر بعد دیکھا کہ واپس چلے آرہے ہےں آکر میرے دیئے ہوئے نوٹ میرے ہاتھ پر رکھ دیئے‘بولے ’صرف عزت والا کام کرتا ہوں یہ نہےں کہ کوئی غلط کام کروں میں نے ان سے جوتوں پر پالش نہےں کرائی تھی اور انہےں محنت کے بغیر خیرات لینا منظور نہ تھا‘ میری گاڑی سرکنے لگی میں کمسن چائے والے اور ضعیف عزت والے کو شکریہ بھی نہ کہہ پایا‘ خانیوال سے آگے میدان ہی میدا ن تھے نہ کوئی پہاڑی نہ کوئی ٹیلہ‘ گاڑی جابجا نہروں کے اوپر سے گزرتی تیر کی طرح سیدھی چلی جارہی تھی‘ ملتان اور لاہور کے درمیان دو سو آٹھ میل لمبی یہ لائن 1864ءمیں
 ڈالی گئی تھی اس وقت یہ کام آسان نہ تھا‘ ٹھیکیداراناڑی تھے مزدور نایاب تھے یہاں تک کہ پٹڑیوں کے ساتھ ساتھ بچھانے کےلئے پتھر بھی دستیاب نہ تھے میں اس شام لاہور پہنچا تو میرے بی بی سی کے ساتھی شاہد ملک اور انکے کچھ دوست مجھے لینے آئے تھے اس وقت ان میں بحث ہورہی تھی کہ عابدی صاحب اونچے درجے میں بیٹھے ہوں گے یا نچلے درجے میں بہر حال وہ پلیٹ فارم پراس جگہ کھڑے میرا انتظار کررہے تھے جہاں اونچے درجے کے ڈبے لگتے ہےں‘اس شام انہےں مایوسی ہوئی۔“ اس اقتباس کا حاصل مطالعہ سفر کے دوران غیر متوقع طور پر ایسے لوگوں سے ملاقات ہے جوبظاہر عام لوگوں میں سے ہوتے ہیں تاہم اپنے روئیے سے وہ ملنے والوں پر خاص اثر چھوڑتے ہیں۔عام طور پر سفر میں انسان کا واسطہ ایسے بہت سے لوگوں سے پڑتا ہے جن کے بارے میں وہ پہلے سے نہیں جانتا تاہم وہ اپنے اخلاق اور رویے سے مختصر ملاقات کے دوران دیرپا اثرات چھوڑ جاتے ہیں اور ملنے والا ان کی یادوں کو انمول اثاثہ سمجھ کر ساتھ لے جاتا ہے۔