پورے بیس برس پہلے ستائیس جولائی 2004 ء کو بوسٹن میں ڈیموکریٹک پارٹی کے نیشنل کنونشن میں براک اوباما نے ایک ایسی تقریر کی تھی جسے سیاسی کنونشنز کی اہم ترین اور تاریخ ساز تقریر کہا جاتا ہے۔ اس تقریر کے چار سال بعد براک اوباما صدارتی الیکشن جیت کر امریکہ کے پہلے سیاہ فام صدر بن گئے تھے۔ اس تقریر کو One of the most electrifying speeches in political convention history کہا جاتا ہے۔ اس تقریر کے دوران تینتیس مرتبہ لوگوں نے کھڑے ہو کر تالیا ں بجائی تھیں۔ اس وقت براک اوباما Illinois کی سینٹ کے امیدوار تھے۔ اس کنونشن کے چند ماہ بعد براک اوباما نے سینٹ کا الیکشن جیت کر وائٹ ہاؤ س کے سفر کا آغاز کر دیا تھا۔ بوسٹن میں ڈیموکریٹک پارٹی کے ابھرتے ہوے ستارے نے اس جوشیلی تقریر میں امید کو زندہ رکھنے‘ تبدیلی پر یقین رکھنے اور ایک بہتر مستقبل کے لئے مل جل کر کوشش کرنے کے پیغامات دئیے تھے۔آج مبصرین کہہ رہے ہیں کہ براک اوباما کی بیس برس پہلے کی جذباتی تقریر غلط ثابت ہو چکی ہے۔ پہلے سیاہ فام صدر کی آٹھ سالہ صدارت نے امریکہ کو بری طرح تقسیم کر دیا ہے۔ اوباما کا دور صدارت ڈونلڈ ٹرمپ کے عروج کا باعث بنا جسکے نتیجے میں نسلی تفاوت اور قوم پرستی کے رحجان میں اضافہ ہوا۔ چھوٹے شہروں اور دیہاتی علاقوں میں رہنے والے قوم پرست سفید فام‘ تارکین وطن سے شدید نفرت کرنے لگے اور اس تعصب اور تقسیم کے نتیجے میں ڈونلڈ ٹرمپ کے پرستاروں نے چھ جنوری 2021ء کو کیپٹل ہل پر حملہ کرکے سرکاری دفتروں پر قبضہ کر لیا اور پانچ افراد کو ہلاک کردیا۔چند روز پہلے جمعرات بائیس اگست کو شکاگو میں ختم ہونیوالے ڈیموکریٹک پارٹی کے کنونشن میں ایک سیاہ فام خاتون کو صدارتی امیدوار نامزد کیا گیا۔ ڈیموکریٹک پارٹی کے اس حیران کن اقدام پر بڑے شہروں میں لوگوں کا جوش و خروش دیدنی ہے مگر دیہاتی علاقے جنہیں Heartland کہا جاتا ہے میں لوگ پوچھ رہے ہیں کہ کیا اب ایک سیاہ فام عورت ہم پر
حکومت کرے گی۔ اکثر امریکی انتخابات میں آخری فیصلہ سات جنوبی اور وسط مغربی ریاستیں کرتی ہیں۔ ان ریاستوں نے 2016ء میں ہیلری کلنٹن کو اس لئے ووٹ نہیں دئیے تھے کہ وہ ایک عورت تھی۔اس تناظر میں نومبر 2024ء کے صدارتی الیکشن کا اہم ترین سوال یہ ہے کہ کیا امریکہ میں صنفی تعصب ختم ہوگیا ہے۔ ڈونلڈ ٹرمپ کی مقبولیت کی اصل وجہ اسکی نسلی امتیاز پر مبنی قوم پرست سیاست ہے۔ اس میں اگر صنفی تعصب کوشامل کر لیا جائے تو ڈیموکریٹک پارٹی کی صدارتی امیدوار کاملہ ہیرس کی کامیابی کے امکانات کچھ زیادہ روشن نظر نہیں آتے مگر حیران کن بات یہ ہے کہ کاملہ ہیرس نے ایک ماہ میں ڈیموکریٹک پارٹی کی انتخابی مہم کے مردہ گھوڑے میں جان ڈال دی ہے۔ ایک ماہ پہلے سیاہ فام نوجوان لاکھوں کی تعداد میں ری پبلکن پارٹی کا رخ کر رہے تھے۔ وہ معاشی مشکلات کے علاوہ صدر بائیڈن کی ضعیف العمری سے نالاں تھے۔ صدر بائیڈن نے 28 جون کو اٹلانٹا میں ڈونلڈ ٹرمپ کے ساتھ ہونیوالے صدارتی مباحثے میں اس قدر کمزور کارکردگی کا مظاہرہ کیا کہ ڈیموکریٹک پارٹی کے ووٹروں کو یقین ہو گیا کہ ان کی جیت ممکن نہیں۔ اس کے بعد لبرل میڈیا اور ڈیموکریٹک پارٹی کے سینئر لیڈر جن میں براک اوباما اور سابقہ سپیکر نینسی پلوسی سر فہرست تھے نے صدر بائیڈن کو صدارتی مقابلے سے دستبردار ہونے پر مجبور کر دیا۔ اس سے اگلا مرحلہ ایک ایسے صدارتی امیدوار کا انتخاب تھا جو ڈیموکریٹک پارٹی کو نہ صرف متحد رکھ سکے بلکہ
پارٹی چھوڑ کر جانے والے ووٹروں کو واپس بھی لا سکے۔ کاملہ ہیرس نے ایک ماہ کے اندر یہ دونوں کام کر دکھائے ہیں۔ انیس سے بائیس اگست تک کے کنونشن میں ووٹروں کا جوش و خروش اتنا زیادہ تھا کہ اس کا موازنہ براک اوباما کے 2008ء کے کنونشن سے کیا جا رہا ہے۔ اس کنونشن میں کاملہ ہیرس نے ایک جچی تلی تقریر میں اپنی پارٹی کے 4696 ڈیلی گیٹس کا شکریہ ادا کیا جنہوں نے انہیں متفقہ طور پر صدارتی امیدوار منتخب کیا تھا۔ یہ Acceptance Speech کئی اعتبار سے براک اوباما کی 2008 ء کی تقریر سے مختلف تھی۔ اس میں نائب صدر کاملہ ہیرس نے تبدیلی لانے کا وعدہ تو کیا مگر یہ وعدہ براک اوباما کی طرح جوشیلے اور جذباتی انداز میں نہ تھا۔ کاملہ ہیرس نے کہا Change will happen bit by bit یعنی تبدیلی دھیرے دھیرے آئیگی۔ تجزیہ نگاروں کے مطابق کاملہ ہیرس ایک ہی ریلے میں اسٹیبلشمنٹ کو بہا لے جانے پر یقین نہیں رکھتیں۔ وہ بنیادی طور پر ایک Institutionalist یعنی اداروں پر یقین رکھنے والی لیڈر ہیں۔ وہ کئی برسوں تک کیلی فورنیا میں ڈسٹرکٹ اٹارنی رہنے کے علاوہ اٹارنی جنرل بھی رہ چکی ہیں۔ اس لحاظ سے وہ ریاستی اداروں کی طاقت اور ان کی اندرونی کارکردگی سے اچھی طرح واقف ہیں۔ کاملہ ہیرس اگر صدارت حاصل کرنے میں کامیاب ہو جاتی ہیں تو وہ امریکہ کی پہلی خاتون صدر‘ پہلی ایشیائی امریکن صدر اور دوسری سیاہ فام صدر ہوں گی۔ دنیا کے طاقتور ترین سرکاری عہدے کو حاصل کرنے کے لئے کاملہ ہیرس‘ ان کے نائب صدر Tim Waltzاور ڈیموکریٹک پارٹی کو انتھک محنت کرنا ہو گی۔ ڈونلڈ ٹرمپ اپنی ہزار خامیوں کے باوجود ایک ایسا مقبول لیڈر ہے جسے شکست دینا پہلے کبھی آسان تھا نہ اب ہے۔ ڈیموکریٹک پارٹی کے کنونشن میں نظر آنے والا جو ش و خروش ان سات ریاستوں کے عوام کی نمائندگی نہیں کرتا جن کے ووٹ کو فیصلہ کن حیثیت حا صل ہے۔ یہ ووٹ حاصل کرنے کے لئے براک اوباما کے جوش و جذبے سے زیادہ سنجیدگی اور فہم و فراست کی ضرورت ہے۔