روزنامہ آج میں شائع ہونے والے بعض کتابوں سے اقتباس کیلئے قارئین کی جانب سے دوبارہ اشاعت کا کہا جاتا ہے‘ قارئین کی پسند کو مدنظر رکھتے ہوئے آج کا شائع ہونے والا اقتباس مشہور مصنف اور براڈکاسٹر رضا علی عابدی کے نشر پروگرام کا منتخب حصہ ہے جو کہ قارئین کیلئے پیش خدمت ہے۔معروف براڈ کاسٹر رضا علی عابدی قدیم پل لینس ڈاؤن سے متعلق بتاتے ہیں کہ یہ آسمان کو چھونے والا لوہے کا پل25 مارچ 1889ء کو کھلا تھا‘ اس وقت تک لاہور سے کراچی جانے والی گاڑی یہاں سکھر میں رک جاتی تھی‘ پھر بھاپ سے چلنے والی فیری آٹھ ویگن دریاپار لے جاتی تھی اور اس طرح ٹرین آگے چلتی تھی‘ یہ سلسلہ دس برس تک جاری رہا‘آخر سات سمندر پار لندن میں بیٹھے ہوئے انجینئر سرالیکزانڈرینڈل کو پل کا نقشہ بنانے اور ویسٹ ووڈ بیلی اینڈ کمپنی لندن کو نقشے کے مطابق پل تیار کرنے کا کام سونپا گیا‘ کتابوں میں لکھا ہے کہ ایسا پل شاید ہی کہیں بنا ہو‘ ایک مغربی مورخ نے لکھا ہے کہ یوں لگتا ہے کہ سکھر کے پل کا نقشہ بنانے والے نے دل ہی دل میں معماروں سے کہا ہوگا کہ ذرا میرا یہ پل تو بنا کر دکھاؤ‘ تین ہزار تین سو ٹن وزنی یہ پل لندن میں بنا اور پہلے اسے وہیں جوڑا گیا کہتے ہیں کہ شہر کے اندر فیکٹری کے آنگن میں کھڑا یہ پہاڑ جیسا پل دور دور تک نظر آتا تھا اس کے بعد پل دوبارہ کھول کر اس کے ٹکڑے سکھر پہنچانے کا کام شروع ہوا‘ یہ1887ء کی بات ہے پل کا نقشہ تیار کرنے والے سرالیکزانڈر رینڈل نے خود کبھی دریائے سندھ اور سکھر کا منہ بھی نہیں دیکھا تھا آخر ایک عظیم دریا کے اوپر ایک بھاری بھر کم پل کی تعمیر شروع ہوئی‘برصغیر کے مزدوروں نے کمال کی مہارت کا مظاہرہ کرتے ہوئے اس کے آڑے ترچھے آہنی شہتیر جوڑے19مارچ1889ء کو پل کی آزمائش ہوئی چھ دن کے بعد بہت شاندار تقریب میں لینس ڈاؤن برج کا افتتاح ہوا‘ یہ رسم وائسرائے ہند‘ لارڈلینس ڈاؤن کو انجام دینی تھی مگر انہوں نے عین وقت پر معذرت کرلی چنانچہ بمبئی کے گورنر لارڈ ری نے افتتاح کیا‘ اس موقع پر فیتہ نہیں کاٹا گیا پل کے دروازے پر لگا ہوا نہایت آرائشی تالا کھولا گیا‘ یہ تالا میوکالج آف آرٹس‘ لاہور کے پرنسپل جے ایل کپلنگ نے تیار کیا تھا جو رڈیارڈکپلنگ جیسے نامور مصنف‘ شاعر اور صحافی کے والد تھے۔ اس طرح25 مارچ1889ء کو پنجاب کا گیہوں مال گاڑیوں کے ذریعے بحیرہ عرب کے ساحل تک پہنچنے لگا خیال تھا کہ سکھر کے اس پل پر تیس لاکھ روپے کی لاگت آئے گی لیکن ستائیس لاکھ سے بھی کم رقم اٹھی۔ لینس ڈاؤن برج کا انجام یہ ہوا کہ تعمیر کے35سال بعد ہی یہ پل کمزور پڑنے لگا‘1924ء میں اس پر سے گزرنے والی گاڑیوں کی رفتار آٹھ کلومیٹر کردی گئی اور اس کی جگہ نیا پل بنانے کے مشورے ہونے لگے آخر1962ء میں ذرا فاصلے پر ایوب برج بنا اسی سال6مئی کو اس وقت کے صدر پاکستان فیلڈ مارشل ایوب خان نے پل کا افتتاح کیا‘ یہ سیدھا سادہ‘ سبک اور رواں پل ہے جس کا نقشہ مشہور سائنس دان‘ ریاضی دان‘ مصور‘ شاعر اور مصنف ڈاکٹر ڈیوڈ اشٹین مین نے بنایا تھا۔
آیئے اب آگے چلیں‘ روہڑی کوئی معمولی اسٹیشن نہیں چار جانب سے آکر ریلوے لائنیں یہاں ملتی ہیں یا یوں کہہ لیجئے کہ یہاں سے چار جانب گاڑیاں جاتی ہیں انگریز حکمرانوں کا خواب پورا ہو گیا ہو تا تو افغانستان کے راستے وسطی ایشیا اور یورپ تک ٹرین یہیں سے چلا کرتی‘ اس رات سارا اسٹیشن یوں مصروف اور منہمک تھا جیسے دن ابھی ڈھلا ہی نہ ہو۔(نشرپروگرام سے اقتباس)