روزنامہ آج میں شائع ہونے والے بعض کتابوں سے اقتباس کیلئے قارئین کی جانب سے دوبارہ اشاعت کا کہا جاتا ہے‘ قارئین کی پسند کو مدنظر رکھتے ہوئے آج کا شائع ہونے والا اقتباس مشہور مصنف اور براڈکاسٹر رضا علی عابدی کے نشر پروگرام کا منتخب حصہ ہے جو کہ قارئین کیلئے پیش خدمت ہے۔ مصنف اپنے ایک سفر نامے میں لکھتے ہیں کہ مجھے دریاکے دائیں کنارے پر چل کر ڈیرہ غازی خان پہنچنا تھا مگر مجبوراً مجھے پل پار کرنا پڑا‘احباب نے مشورہ دیا کہ دریا پار بھکر چلے جائیے اور وہاں سے ٹرین یا بس لیکر ڈیرہ غازی خان چلے جائیے‘ اس طرح میں اس پل پر روانہ ہوا جس کا ایک سرا خیبر پختونخوا اور دوسرا صوبہ پنجاب میں تھا‘وہ رات میں نے بھکر میں گزاری‘ چھوٹی بستیوں میں ایک نعمت افراط سے ملتی ہے‘ محبت‘ بھکر میں مجھے جاننے والے کم نہ تھے ایسی دلجوئی کی کہ رات کا گزرنا محسوس تک نہ ہوا‘ وہ اچھے دن تھے۔ صبح کی ٹرین مقررہ وقت پر آ گئی‘ میں سوار ہوا تو ٹرین کے عملے کو میری موجودگی کی خبر ہو گئی۔ نتیجہ یہ ہوا کہ نہایت لذیذ ناشتہ اور خوب گرم چائے ملی‘ریل گاڑی چلتی گئی‘ میں دونوں طرف کی بستیوں کا مشاہدہ کرتا گیا خود اپنے تاثرات ریکارڈ کئے‘اس وقت پہلی بار خیال آیا کہ کیوں نہ ریل گاڑیوں کے نظام پر کوئی پروگرام ترتیب دوں‘ پانچ سال بعد یہی گاڑیاں تھیں‘ یہی میں تھا اور ریل کہانی کے نام سے نئی تحقیق جاری تھی‘میں ڈیرہ غازی خان پہنچ تو گیا مگر کسی بھٹکے ہوئے اجنبی کی طرح میں اس شہر میں کسی سے واقف نہ تھا‘ میری کتاب میں کسی کا نام پتہ یا ٹیلی فون نمبر نہیں تھا‘یہاں سامعین تو ہزاروں ہوں گے لیکن مجھے کسی کا نام یاد نہیں تھا‘ مجھے یہ بھی پتہ نہ تھا کہ رات کہاں گزاروں گا‘ سٹیشن پراترتے ہی جو پہلی صورت نظر آئی وہ گیٹ پر کھڑے ہوئے ٹکٹ کلکٹر تھے‘میں نے اپنا تعارف کرایا تو سارا ماحول جگمگا اٹھا‘میں نے کہا کہ مجھے شہر کے کالج تک پہنچا دیجیے۔ فوراً ہی
تانگہ منگا لیا گیا‘ذرا دیر بعد میں شہر کے کالج میں داخل ہوا اور پہلے استاد سے اپنا تعارف کرانے کی دیر تھی کہ پورے کالج میں میرے آنے کی خبر پھیل گئی اور پھر جو محفل جمی وہ صحیح معنوں میں استادوں کی محفل تھی‘ذرا دیر پہلے مجھے فکر تھی کہ رات کہاں قیام ہو گا۔ اب یہ فکر تھی کہ کسے انکار کروں آخر قرعہ پروفیسر شریف اشرف صاحب کے نام نکلا جو خالص میرے ڈھب کے آدمی تھے۔ علاقے کی تاریخ‘ روایت اور ثقافت میں سر سے پاؤں تک ڈوبے ہوئے‘ میں ان کے گھر
پہنچا تو برآمدے میں ایک عجیب چیز دیکھی میں اپنی عمر میں کھٹیا‘ کھاٹ کھٹولہ‘ پلنگڑی اور پلنگ دیکھ چکاتھا مگر یہ تو مہاپلنگ تھا جس پر چاہے تو پورا کنبہ سو سکتا تھا جسے مقامی لوگ ہماچی کہتے تھے۔ ایک اور مقام پر رضا علی عابدی رقم طراز ہیں کہ اس شام وہاں دنیا کے سب سے دراز قد جوان عالم چنا کی شادی تھی جس میں مجھے فوراً ہی شریک کرلیاگیا مگر مجھے یہ خیال ستائے جارہا تھا کہ یہاں کوئی میرا میزبان نہیں‘ میں رات کہاں گزاروں گا‘ اس دوران مجھے حکومت کا مہمان خانہ مل گیا جس کے نگران نے مجھے اتنی رعایت سے نوازا کہ گیسٹ ہاؤس کا خصوصی مہمانوں کا کمرہ میرے لئے کھول دیا گیا‘ البتہ خبردار کردیا کہ رات ہونے سے پہلے کوئی سرکاری مہمان آگیا تو آپ کو کمرہ خالی کرنا ہوگا۔ابھی میں نے
آمادگی پوری طرح ظاہر بھی نہیں کی تھی کہ کوئی سرکاری افسر صاحب تشریف لے آئے اور مجھے کمر ے سے جاتے ہوئے یوں دیکھا جیسے میں نے کوئی قصور کیا ہو۔ادھر عالم چنا کی شادی کے کھانے کا وقت ہوگیا اور میں وہاں چلا گیا‘ وہاں میری ملاقات کراچی کے ایک چھوٹے سے اخبار کے اتنے ہی چھوٹے سے رپورٹر سے ہوگئی جو کوٹری جیسے چھوٹے سے قصبے سے خبریں بھیجنے کا فرض سرانجام دیتا تھا مگر صاحب! رپورٹر صاحب نے مجھ سے پہلی بات یہ پوچھی کہ رات کو آپ کہاں قیام کرینگے‘ میں نے سرکاری مہمان خانے سے بے دخلی کی کہانی سنائی تو اس نے حیرت سے مجھے دیکھا‘ قریب ہی ایک سرکاری اہلکار ہاتھ باندھے صحافی کی خدمت میں کھڑا تھا‘ صحافی نے اسے قریب بلاکر کہا ”عابدی صاحب بھی وہاں پہاڑی کی چوٹی پر ریسٹ ہاؤس میں قیام کرینگے‘ سارا انتظام صحیح ہونا چاہئے“ اہلکار لپک کر کہیں چلاگیا۔ ذرا دیر میں ایک کار ہمیں لینے آگئی اور ہم دونوں کو نہایت دلکش پہاڑی کی چوٹی پر بنے ریسٹ ہاؤس میں لے گئی جہاں سے سیہون شریف کا ایسا دلکش نظارہ پہلے تو شہنشاہ ہمایوں اور حمیدہ بیگم اور پھر ذوالفقار علی بھٹو نے کیاہوگا‘ بھٹو صاحب کے بارے میں تو یقین سے کہہ سکتا ہوں کیونکہ ریسٹ ہاؤس میں مجھے سونے کیلئے جو بستردیاگیا اس پر بھٹو صاحب سو چکے تھے۔ابھی میں کوٹری کے چھوٹے سے نامہ نگار کے اثر ورسوخ پر حیرت زدہ تھا کہ پولیس کی کچھ شاندار گاڑیاں آئیں جس میں مقامی حکام بیٹھے تھے‘ انہیں میرے آنے کی خبر ہوئی تو وہ مجھ سے ملنے آئے تھے‘ وہ آتے ہی بولے کہ ”عابدی صاحب‘ آپ کو چاہئے تھا کہ ہمیں اپنے آنے کی خبر کرتے‘ یہاں سکیورٹی کے مسائل ہیں اور ہمیں آپ جیسے مہمانوں کا خیال رکھنا پڑتا ہے۔“میں دیر تک سوچتا رہا کہ کس کا اثر ورسوخ زیادہ ہے‘ میرا یا اس غریب کوٹری کے ضلعی نامہ نگار کا۔ نیچے شہر میں رات بھر جشن کا سماں رہا‘ وہ وہاں ہر رات کا معمول تھا۔