کملا  ہیرس اور امریکی صدارت

 میری ناقص رائے میں Kamala Harris کا صحیح تلفظ کمالا ہیرس ہے۔ مجھے یقین ہے کہ اس خاتون کی ہندوستانی والدہ بھی اسے ”کمالا“  ہی کہتی ہو ں گی مگر امریکہ میں جس کا جو نام پڑ جائے وہی اسے قبول کرنا پڑتا ہے۔ جولائی میں جو بائیڈن کے انتخابی منظر نامے سے ہٹتے ہی کملا ہیرس ڈیمو کریٹک پارٹی کی صدارتی امیدوار کے طور پر سامنے آئیں۔ یہ خبر سنتے ہی ڈونلڈ ٹرمپ نے اپنے نئے حریف کو آڑے ہاتھوں لیا۔ ٹرمپ کی عادت ہے کہ وہ جی کھول کر اپنے مد مقابل کا مذاق اڑاتا ہے۔ اس کا پہلا حملہ حریف کے نام پر ہوتا ہے۔ ہیلری کلنٹن کو اس کے مخالفین آج تک Crooked Hillaryکہتے ہیں۔ جو بائیڈن کو ٹرمپ نے چار برس پہلے Sleepy Joe کہہ کر پکارا اور پھر یہ منحوس نام اس کے ساتھ ایسا چپکا کہ اسے بالآخر دوسری مدت صدارت سے دستبردار ہونا پڑا۔ ایک ماہ پہلے جب ٹرمپ نے کملا ہیرس کو دس مختلف ناموں سے پکارنا شروع کیا تو اس کے انتخابی جلسوں کی رونق دوبالا ہو گئی۔ اس کے پرستار کمالا‘ کملا‘ کمیلہ‘ کو مالا‘کیمالا اور نہ جانے کیا کیا سن کر دیر تک تالیاں پیٹتے اور اپنے ہیرو کے مد مقابل کا دل کھول کر مذاق اڑاتے۔ لیکن یہ صورتحال زیادہ دیر تک قائم نہ رہ سکی۔ ہر رنگ و نسل کی خواتین نے ڈونلڈ ٹرمپ کے اس ہتک آمیز رویے کی مخالفت کی اور دیکھتے ہی دیکھتے سابقہ صدر پر Misogynist یعنی عورتوں کی طرف بے رغبتی کرنے والے شخص کی ملامت دھر دی گئی۔ ڈونلڈ ٹرمپ زندگی بھر خواتین کے ساتھ جو سلوک کرتا رہا اسے ایک دنیا جانتی ہے مگر وہ ری پبلکن پارٹی کی خواتین کی حمایت کی وجہ سے صنفی الزامات کی زد میں نہ آیا لیکن اس مرتبہ سیاہ فام خواتین نے سابقہ صدر کے خلاف ایسا محاذ کھولا کہ اسے پسپا ہو نا پڑا۔ اس کے بعد جب سے ڈونلڈ ٹرمپ نے اپنے نئے صدارتی حریف کو کملا کہنا شروع کیا ہے تو لگتا ہے کہ پوری قوم کا اس نام پر اجماع ہو گیا ہے۔ باقی لوگوں کی دیکھا دیکھی میں نے بھی کمالا کو کملا کہنا شروع کر
 دیاہے۔ لیکن وہ جو کہتے ہیں کہ نام میں کیا رکھا ہے تو اس حوالے سے سچ یہ ہے کہ تا حال نائب صدر کہلانے والی خاتون کو جو نام بھی دیا جائے وہ ابھی تک انتخابی میدان میں واضح برتری حاصل نہیں کر سکی ہیں۔اخبارات کے مطابق سات Swing States کے ووٹر وں کی ایک بڑی تعدادیہ کہہ رہی ہے کہ ہم کملا ہیرس کو زیادہ نہیں جانتے لہٰذا  ہمیں اس کی شخصیت اور پالیسیوں کے بارے میں مزید معلومات چاہئیں۔ منگل کی شام ہونیوالی صدارتی ڈیبیٹ کو اسی لئے نہایت اہم کہا جا رہا ہے کہ اس میں کملا ہیرس کو لاکھوں ناظرین کے سامنے اپنے آپ کو متعارف کرانے کا موقع ملے گا۔ ایک طرف وہ اپنا تعارف کرائے گی اور دوسری طرف ڈونلڈ ٹرمپ اس کی مذمت کرکے اسے غلط ثابت کرنے کی کوشش کرے گا۔ اس مباحثے میں ٹرمپ کے لئے آسانی یہ ہوگی کہ اسے امریکی عوام کی ایک بڑی تعدادنہ صرف اچھی طرح جانتی ہے بلکہ وہ اس کی پالیسیوں سے واقفیت بھی رکھتے ہیں۔ وہ 2016ء سے لیکر اب تک آٹھ صدارتی مباحثوں میں حصہ لے چکا ہے جبکہ کملا ہیرس پہلی مرتبہ اس میدان میں اتریں گی لیکن وہ کیونکہ کیلی فورنیا میں طویل عرصے تک ڈسٹرکٹ اٹارنی اور اٹارنی جنرل رہ چکی ہیں اس لئے وہ بھی حریف کو آڑے ہاتھوں لینے کا گر جانتی ہیں۔  اس وقت کئی سرویز اور Opinion Pollsکے مطابق ڈونلڈ ٹرمپ کو کملا ہیرس پر صرف ایک پوائنٹ کی برتری حاصل ہے۔ ماہرین کے مطابق گذشتہ ایک ہفتے سے یہ مقابلہ 46اور
 47 پرسنٹ کے ہندسے پر رکا ہوا ہے جس کامطلب یہ ہے کہ کملا ہیرس کے اس مقابلے میں شامل ہونے کے بعد جو جوش و خروش پید اہوا تھا اس میں کمی آگئی ہے۔ اب کملا کو مزید آگے بڑھنے کے لئے یہ ثابت کرنا ہو گا کہ اس کی معاشی پالیسیاں گیس اور گروسری کی قیمتوں کو کم کرنے کے علاوہ گھروں کے کرایے اور انٹرسٹ ریٹ میں بھی تخفیف کا باعث بنیں گی۔ یہ کام خاصا مشکل ہے کیونکہ جو بائیڈن کو آج کل کی کمر توڑ مہنگائی کا ذمہ دار قرار دیا جا رہا ہے اور ٹرمپ یہ کہہ رہا ہے کہ بائیڈن اور ہیرس کی پالیسیوں میں کوئی فرق نہ ہو گا۔ڈونلڈ ٹرمپ یہ بھی کہہ رہا ہے کہ کملا ہیرس کو اچھی طرح معلوم تھا کہ بائیڈن صدارت سنبھالنے کے قابل نہیں مگر وہ مناسب موقع کے انتظارمیں تھی تاکہ وہ صدر امریکہ کا تختہ الٹ کر اقتدار سنبھال لے اور اس نے بالآخر ایسا کر دکھایا۔ ڈونلڈ ٹرمپ اپنے جلسوں میں یہاں تک کہتا ہے کہ گذشتہ چار برسوں میں اصل حکومت تو کملا ہیرس کی تھی جو با ئیڈن تو محض دکھاوے کا صدر تھا۔ ممتاز مؤرخ Honor Cargill Martin نے ٹرمپ ہیرس مقابلے کے بارے میں لکھاہے کہ مغرب میں رومن دور سے لیکر آج تک عورتوں کو شک کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے۔ ان کی رائے میں مغربی مرد ہمیشہ سے خواتین کو پردے کے پیچھے سے سازشیں کرنے اور اقتدار کو اپنے قبضے میں رکھنے والی خفیہ طاقت سمجھتا ہے اس لئے وہ بظاہر تو اس کی عزت کرتا ہے مگر در حقیقت وہ اسے اقتدار کی سیاست سے دور رکھنے کی شعوری طور پر کوشش کرتا ہے۔ مغربی مردوں کے اس رویے کی مثال دیتے ہوئے Cargil Martin نے لکھا ہے کہ ولیم شیکسپیئرنے لیڈی میکبتھ اور قلو پطرہ جیسے لافانی کردار عورت کے بارے میں مرد کے ان ہی شکوک و شبہات کوذہن میں رکھ کر تخلیق کئے ہیں۔ مصنف کی رائے میں اگر ہیلری کلنٹن صنفی تعصب کی اس دیوار کو توڑنے میں ناکام رہی ہیں تو کملا ہیرس بھی اسے آسانی سے تسخیر نہ کر سکیں گی۔