صدارتی مباحثے کا نتیجہ

 کسی بھی مباحثے میں ہار جیت کا فیصلہ کیسے ہوتاہے۔ مقابلے کے اختتام پر اگر دونوں ا طراف سے فتح کا اعلان کر دیا جائے تو پھر طلسمی تاج کسے پہنایا جائے۔ امریکہ میں ہر صدارتی مباحثے کے بعد ایسا ہی ہوتا ہے۔مگر پھر دھند چھٹنے لگتی ہے۔ رفتہ رفتہ ملگجی اندھیرا رخصت ہو جاتا ہے اور سامنے کا منظر صاف نظر آ نے لگتا ہے۔ دس ستمبر کوفلا ڈلفیا میں ہونیوالے صدارتی مباحثے کے دوران یہ صاف نظر آ رہا تھا کہ کملا ہیرس بڑے جچے تلے انداز میں حملے کر رہی تھیں اور ڈونلڈٹرمپ کے لیے اپنا دفاع مشکل ہو رہا تھا۔ اس ڈیبیٹ کا دورانیہ اگر چہ کہ نوے منٹ تھا مگر یہ ایک سو پانچ منٹ تک جاری رہی۔ اس مقابلے میں ٹرمپ اپنا دفاع تو کرتے رہے مگر وہ کوئی بھرپور جوابی حملہ نہ کر سکے۔ اس سے یہ نتیجہ اخذ کیا جا سکتاہے کہ ہار جیت کا فیصلہ ہو گیا ہے۔مگر ایسا اس لئے نہ ہو سکا کہ مقابلے کے بعد دونوں امیدواروں کے حامیوں نے جن میں نیوز چینلزکے اینکرز سے لیکر دونوں جماعتوں کے ہاؤس اور سینٹ کے نمائندے بھی شامل تھے نے بڑھ چڑھ کر اپنے اپنے لیڈر کے حق میں بیان دینے شروع کر دیئے۔ ایسے میں اگر ایک غیر جانبدارمبصر کی حیثیت سے یہ مان بھی لیا جائے کہ کملا ہیرس کی کارکردگی بہت بہتر تھی پھر بھی یہ کہنا مشکل ہو گا کہ وہ  Indepenent ووٹروں کو اپنے حق میں قائل کرنے میں کامیاب ہو گئی ہیں۔ ڈونلڈ ٹرمپ تو اپنے پرستاروں کو  ہر حال میں قبول ہیں۔ خواتین کی طرف سے دائر کئے گئے مقدموں میں جرمانے ادا کرنے کے بعد اور عدالت کی طرف سے چونتیس الزامات میں سزا یافتہ قرار دئیے جانے کے بعد بھی وہ اپنے پرستاروں کے لئے ایک مسیحا ہیں۔ اس کے بر عکس کملا ہیرس نے لوگوں کو قائل کرنا ہے کہ وہ دنیا کے سب سے طاقتور ملک کی صدارت سے عہدہ بر آ ہونے کی صلاحیت رکھتی ہیں۔ کیا وہ اس ڈیبیٹ میں لوگوں کو قائل کر سکی ہیں کہ وہ ولادی میر پیوٹن‘  شی جن پنگ اور دوسرے عالمی لیڈروں کے ساتھ برابر کی سظح پر بات چیت کر سکتی ہیں۔ ڈونلڈ ٹرمپ تو اس امتحان سے گزر چکا ہے۔ لوگ جانتے ہیں کہ وہ کسی سے دبنے والا نہیں۔  کملا ہیرس نے کیونکہ ڈونلڈ ٹرمپ کواس ڈیبیٹ میں دفاعی پوزیشن اختیار کرنے پر مجبور کر دیا تھا اس لثے یہ کہا جا سکتا ہے کہ وہ کسی بھی ملک کے لیڈر سے گھبرائے بغیر مکالمہ کر سکتی ہیں۔ ڈیموکریٹک پارٹی کے ووٹروں نے اس مباحثے کو دیکھنے کے بعد یہ اندازہ لگا لیا کہ کملا ہیرس کو صدارت سونپی جا سکتی ہے مگر سوال یہ ہے کہ کیا ان سات Swing States کے ووٹر جو ہر الیکشن کا فیصلہ کرتے ہیں‘نے بھی یہ یقین کر لیا ہے کہ کملا ہیرس اس منصب کی اہل ہیں۔ اس سوال کا جواب اسی وقت ملے گا جب ان ریاستوں کے ووٹروں سے براہ راست یہ سوال پوچھا جائے گا اور ان کی ایک بڑی تعداد Opinion Polls   کرنے والی کمپنیوں کو اپنی رائے سے آگاہ کرے گی۔ اس قسم کے سرویز کیونکہ ہزاروں ووٹروں سے انٹرنیٹ یا فون پر سوال و جواب کے ذریعے کئے جاتے ہیں اس لئے ان کے نتائج آنے میں آٹھ دس دن لگ جاتے ہیں۔ اس لحاظ سے فی الحال حتمی طور پر یہ نہیں کہا جا سکتا کہ کملا ہیرس سونگ سٹیٹس کے ووٹروں پر اثر انداز ہونے میں کامیاب ہوگئی ہیں۔ان دونوں میں سے کوئی امیدوار بھی اگر ڈیبیٹ کے بعد واضح برتری حاصل کر لیتا ہے پھر بھی یہ نہیں کہا جا سکے گا کہ اس کی یہ برتری الیکشن کے دن تک برقرار رہے گی۔ باقی کے سات ہفتوں میں کئی ایسے واقعات ہو سکتے ہیں جو پانسہ پلٹ سکتے ہیں۔ اس مباحثے کے بعد پنسلوینیا میں ایک ریلی سے خطاب کرتے ہوئے کملا ہیرس نے کہا I refused to let him off the hook. But debates do not win elections.  اس سے پہلے ہیلری کلنٹن بھی کہہ چکی ہیں کہ ڈیبیٹ میں کامیابی کا مطلب الیکشن جیتنا  نہیں ہوتا۔  2016 ء کے الیکشن میں دو صدارتی مباحثوں کے بعدہیلری کلنٹن کو ٹرمپ پر اتنی سبقت حاصل ہو گئی تھی کہ اس کی جیت یقینی نظر آ رہی تھی مگر الیکشن کے دن سب سرویز اور Opinion Polls  دھرے کے دھرے رہ گئے تھے۔اس مباحثے میں کملا ہیرس کو اگر یہ مشکل درپیش تھی کہ اس نے اپنے آپ کو لاکھوں ووٹروں سے متعارف کرانا تھا تو اسے یہ آسانی بھی حاصل تھی کہ ٹرمپ ایک کھلی کتاب تھا۔ امریکی سیاست کی تھوڑی بہت سمجھ بوجھ رکھنے والے یہ جانتے ہیں کہ ٹرمپ اپنے جلسوں یامباحثوں میں کیا کہے گا۔ اسے کن باتوں پر غصہ آتا ہے اور اسے کیسے پریشان کیا جا سکتا ہے۔ کملا ہیرس نے جب مباحثے کے دوران یہ کہا کہ ٹرمپ کی ریلیز کا سائز سکڑنا شروع ہو گیا ہے اور آپ دیکھ سکتے ہیں کہ لوگ بور ہو کر اس کی تقریر کی دوران ہی جانا شروع کردیتے ہیں۔ یہ سنتے ہی ٹرمپ مشتعل ہو گیا اور کہنے لگا ”لوگ کملاکی ریلیز میں نہیں جاتے‘ وہ اسے نہیں سننا چاہتے‘ میری ریلیز سے کوئی بھی اٹھ کر نہیں گیا۔ میں نے اتنے بڑے جلسے کئے ہیں جو کسی نے نہیں کئے۔“ ڈونلڈ ٹرمپ ہر جلسے اور ہر مباحثے میں ایسی باتیں بھی کرتا ہے جو اس کے لئے نقصان دہ ثابت ہوتی ہیں۔ اس مباحثے میں اس نے یہ بھی کہا کہ اوہایو کے شہر سپرنگ فیلڈ میں تارکین وطن کتے اور بلیاں چرا کر کھا رہے ہیں۔ اس دروغ بیانی کے ویڈیو کلپ اب پوری دنیا میں دیکھے جا رہے ہیں۔ اس مضحکہ خیز بیان کے باوجودفی الحال مقابلہ برابر کا ہے۔ کملا ہیرس اس مباحثے میں چھائی رہیں مگر ان کی اس جیت کو فیصلہ کن نہیں کہا جا سکتا۔۔