منگل کے روز ایران کے اسرائیل پر حملے کے بعد یہ کہا جا سکتا ہے کہ تہران کی قیادت مشرق وسطیٰ کے بڑھتے ہوے بحران میں ایک خاموش تما شائی کا کردار ادا نہیں کرے گی۔ اکتیس اگست کو تہران میں حماس کے لیڈر اسماعیل ہنیہ کی شہادت کے بعد ایران کی طویل خاموشی نے یہ تاثر پیدا کیا تھا کہ وہ اسرائیل اور امریکہ کے خلاف میدان جنگ میں اترنا نہیں چاہتا۔ جمعے کے دن بیروت میں اسرائیل نے حزب اللہ کے زیر زمین ہیڈ کوارٹر پر متعدد فضائی حملے کرکے اسکے سربراہ حسن نصراللہ کو شہید کر دیا۔ ان حملوں میں صیہونی ریاست نے چار رہائشی عمارتوں پر اسی سے زیادہ چودہ سو کلو گرام وزنی بم گرائے۔ اس حملے میں حسن نصراللہ کیساتھ حزب اللہ کے دیگر لیڈر بھی شہید ہوئے۔ اسکے بعد اسرائیل کے فوجی ترجمان ریئر ایڈمرل Daniel Hagari نے دعویٰ کیا کہ حزب اللہ کی چین آف کمانڈ کو ختم کر دیا گیا ہے۔ حسن نصراللہ کے کزن ہاشم صفی الدین اور انکے نائب شیخ نعیم قاسم کے بارے میں اطلاعات ہیں کہ ان میں سے کسی ایک کو اس عسکری تنظیم کی قیادت سونپی جائیگی۔ تین دہائیوں تک حزب اللہ کے سربراہ رہنے والے حسن نصراللہ ایک کرشماتی شخصیت تھے۔وہ ایک مذ ہبی رہنما ہونیکے علاوہ منجھے ہوے سیاستدان اور جنگی حکمت عملی کا وسیع تجربہ بھی رکھتے تھے۔ انکے پائے کا لیڈر حزب اللہ کی صفوں میں موجود نہیں ہے۔ اس اعتبار سے انکی شہادت اسرائیل کی ایک بڑی کامیابی ہونے کے علاوہ مشرق وسطیٰ کی سیاست پر دور رس نتائج مرتب کرنے کی حامل ہو گی۔دفاعی ماہرین کے مطابق یہ نہیں کہا جا سکتا کہ اتنے قد آور لیڈر کے بعد حزب اللہ کی مزاحمت ختم ہو جائیگی۔ حزب اللہ کے چالیس ہزار سر بکفن اور جذبہ شہادت سے سرشار جنگجو اور انکے پاس ایک لاکھ سے زیادہ راکٹ‘ میزائل‘ ڈرونزاور Precision guided missiles کا ایسا اسلحہ خانہ موجود ہے جو اسرائیل کے دانت کھٹے کرنے کے لیے کافی ہے۔ اسرائیلی فضائیہ نے اگر چہ گزشتہ گیارہ ماہ کے فضائی حملوں میں حز ب اللہ کی عسکری طاقت کو خاصا نقصان پہنچایا ہے مگر اسے صفحہ ہستی سے مٹانا اسرائیل اور امریکہ کے بس کی بات اس لیے نہیں کہ یہ لبنان کے لوگوں کی تنظیم ہے جو گذشتہ چوالیس برسوں سے مادر وطن کے دفاع کے لیے اسرائیلی جارحیت کا مقابلہ کر رہی ہے۔
اسرائیل اچھی طرح جانتا ہے کہ حزب اللہ اور حماس میں بہت فرق ہے اور غزہ اور لبنان بھی ایک جیسے علاقے نہیں ہیں۔ غزہ میں اسرائیل کا سامنا پنجرے میں بند ایک ایسی عسکری تنطیم سے ہے جسکے رابطے بیرونی دنیا سے پوری طرح کٹے ہوے ہیں۔ صیہونی ریاست کے وزیر اعظم بنجا من نیتن یاہو نے ایک سال قبل غزہ پر فوج کشی کرتے ہوے بڑے فخر سے اعلان کیا تھا کہ انکی افواج بہت جلد حماس کا مکمل خاتمہ کر کے اپنے ڈھائی سو سے زیادہ یرغمالیوں کو رہا کرا لیں گی۔ لیکن وہ آج تک حماس کونیست و نابود کرنے میں کامیاب نہیں ہو سکے اور انکے سو سے زیادہ افراد اسوقت بھی غزہ کی سرنگوں میں مقید ہیں۔ اس جنگ کی اہم ترین حقیقت یہ ہے کہ اسرائیل اپنی تمام تر ٹیکنو لاجیکل اور فضائی برتری کے باوجود اگر حماس کو شکست نہیں دے سکا تو وہ حزب اللہ کا صفایا کیسے کرے گا۔ جنوبی لبنان کی اسرائیل سے ملنے والی سرحد ایک ایسا پہا ڑی علاقہ ہے جسکی اونچ نیچ سے حزب اللہ کے جنگجو بخوبی واقف ہیں اور وہ اس میدان میں طویل عرصے تک مزاحمت کر سکتے ہیں۔ اسرائیل اس حقیقت کو بخوبی جانتا ہے اسی لیے وہ لبنان پر وسیع زمینی حملے کے بارے میں ہر روز نت نئے بیانات دیتا رہتا ہے۔بنجامن نیتن یاہو کبھی اس جنگ کے دائرے کو وسطی لبنان تک پھیلانے کی دھمکی دیتا ہے تو کبھی یہ کہتا ہے کہ اسکی افواج جنوبی لبنان میں حز ب اللہ کی زیر زمین سرنگوں کے نیٹ ورک کو ختم کرنے کے بعد واپس آ جائیں گی۔ لبنان سے پسپائی اختیار کرنے کا ایک بڑا بہانہ یہ بھی ہو سکتا ہے کہ امریکہ آئے روز اسرائیل کو جنگ نہ پھیلانے کے مشورے دیتا رہتا ہے۔ یہ دنیا بھر کی آنکھوں میں دھول جھونکنے والی بات ہے۔ جن Bunker busterبموں کے ذریعے حسن نصراللہ کو شہید کیا گیا وہ امریکہ ہی کے مہیا کئے ہوے تھے اور آ ج تک غزہ پر جو ہزاروں بم برسائے گئے ہیں وہ بھی امریکہ ہی کے دیئے ہوئے تھے۔ تہران میں اسماعیل ہنیہ اور بیروت میں حسن نصراللہ کی شہادتیں امریکہ کے انٹیلی جینس نیٹ ورک کی مہیا کردہ معلومات کی مدد سے کی گئی ہیں۔ مشرق وسطیٰ میں یکہ و تنہا اسرائیل ایک ایٹمی طاقت ہونے کی وجہ سے چاروں طرف موجود دشمنوں کے مقابلے میں اپنا دفاع تو کر سکتا ہے مگر وہ مختلف محاذوں پر بیک وقت جارحیت کا ارتکاب نہیں کر سکتا۔ اس بربریت کے لیے اسے امریکہ جیسی عالمی طاقت کی پشت پناہی کی ضروررت ہے۔ امریکہ میں پانچ نومبر کے انتخابات میں ڈونلڈ ٹرمپ جیتیں یا کملا ہیرس‘ اسرائیل کی مالی اور عسکری امداد ہر صورت میں جاری رہیگی۔ اسکی وجہ واشنگٹن میں موجود طاقتور اسرائیلی لابی ہے جسکے درجنوں ارب پتی یہودی ممبر امریکہ کے ریاستی اداروں اور میڈیا میں گہرا اثر رسوخ رکھتے ہیں۔ طاقت کے نشے میں سرشار ہو کر اسی لابی نے جارج بش سے فروری 2003 میں عراق پر حملہ کرایا تھا۔ اس میدان میں پسپا ہونیکے بعد امریکہ کو سمجھ آئی تھی کہ طاقت کتنی ہی بے پایاں کیوں نہ ہوں اسکی کچھ حدود و قیود ہوتی ہیں۔ عراق اور افغانستان کی جنگوں سے سبق سیکھنے کے بعد امریکہ نے یوکرین اور غزہ میں اپنے فوجی نہیں بھیجے۔ واشنگٹن کو اپنی طاقت کی حدود کا پتہ ہے مگر اسرائیل اسوقت اپنی طاقت کے نشے میں سرشار ہے۔ وہ جانتا ہے کہ امریکہ کسی بھی صورت اسے تنہا نہیں چھوڑے گا۔ اسرائیل لبنان پر قبضے کا تجربہ 1982 اور 2006میں کر چکا ہے۔ اسوقت بھی اسے بے نیل و مرام واپس جاناپڑا تھا اور اب بھی ایسا ہی ہو گا۔