عالمی معیشت اور اسرائیل کی جارحیت

مغربی میڈیا یہ تاثر قائم کرنے میں کامیاب ہے کہ اسرائیل غزہ میں ایک سال پہلے شروع ہونیوالی جنگ جیت رہا ہے‘ یکم اکتوبر کو ایران کے اسرائیل پر میزائل حملے سے پہلے امریکہ میں جشن کا سماں تھامگر اب دفاعی امور کے ماہرین یہ سوچ رہے ہیں کہ اسرائیل کے جوابی حملے کی نوعیت کیا ہونی چاہئے۔ تین روز قبل جب صدر بائیڈن سے ایک صحافی نے پوچھا کہ کیاوہ ایران کے تیل کی تنصیبات پر اسرائیل کے حملوں کی حمایت کریں گے تو انہوں نے جواب دیا کہ وہ ایسا کرسکتے ہیں۔ اس کے فوراً بعد عالمی منڈی میں تیل کے ایک بیرل کی قیمت 71ڈالر سے بڑھ کر 77 ڈالر ہو گئی۔ اس اضافے سے امریکی معیشت پر تو کوئی اثر نہ پڑا مگر یورپ‘ افریقہ اور کئی دیگر ممالک کی معیشتوں کے لئے یہ ایک پریشان کن خبر تھی۔ یورپی یونین کے ممالک جو روس اور یوکرین جنگ کی وجہ سے گیس دوسرے ممالک سے مہنگی قیمت پر خرید رہے ہیں اس بات کے متحمل نہیں ہو سکتے کہ انہیں پٹرولیم مصنوعات بھی بھاری بھرکم قیمت پر خریدنا پڑیں۔ یورپی ممالک کی اس تشویش کو بھانپتے ہوئے صدر بائیڈن نے فوراً یہ بیان دیا کہ اسرائیل کو ایران کے تیل کے ذخائرکی بجائے متبادل مقامات پر حملے کرنے چاہیئں یہ ”متبادل مقامات“ عالمی میڈیا پر زیر بحث نہیں لائے جا سکتے۔ یہ راز ہائے درون خانہ ہیں انہیں طے کرنے کے لئے درجنوں امریکی ماہرین اور انٹیلی جنس کمیونٹی کے افراد تل ابیب میں موجود ہیں۔ اسرائیل نے غزہ میں جس بربریت کا مظاہرہ کیا ہے اور جس دیدہ دلیری سے لبنان پر فضائی حملے کئے ہیں اس سے یہ پتہ چلتا ہے کہ اسرائیل کو مشرق وسطیٰ میں امریکی مفادات اور اپنے محسن کے نافذ کردہ عالمی نظام کی کوئی پرواہ نہیں۔ وہ صرف عرب ممالک ہی کو نہیں بلکہ پوری دنیا کو خوفزدہ کر کے اپنے وجود کو برقرار رکھنا چاہتا ہے‘غزہ اور لبنان میں اسرائیلی وحشت کا یہ رقص یورپی ممالک نے اس لئے برداشت کر لیا کہ انہیں اس برہنہ جارحیت کی کوئی قیمت ادا نہیں کرنا پڑی مگر ایران کے اس میدان میں اترنے کے بعد اس جنگ کی نوعیت میں ایک ایک بڑی تبدیلی رونما ہو چکی ہے‘ ایران‘  حماس اور حزب اللہ کی طرح ایک جنگجو ملیشیا نہیں بلکہ ایک ایسا طاقتور ملک ہے جو اسرائیل کی بھرپور فضائی طاقت کی وجہ سے اسے شکست تو نہیں دے سکتا مگر وہ امریکہ کی وضع کردہ عالمی معیشت کوچند گھنٹوں میں خلیج فارس میں ڈبو سکتا ہے۔ایران کی اپنی معیشت بھی امریکی پابندیوں کی وجہ سے تنزل کا شکار ہے مگر اسرائیل کے ساتھ جنگ اس کی بقاء کا معاملہ ہے۔اسرائیل اگر اس کے تیل کے ذخائر یا نیوکلیئر تنصیبات پر حملہ کرتا ہے تو پھر اس کا جواب ایک بڑی اور کھلی جنگ کی صورت ہی میں دیا جا سکے گا۔ یکم اکتوبر کے حملے کے بعد ایران کے دفاعی ماہرین تسلسل کے ساتھ الجزیرہ اور عالمی میڈیا پراسرائیل کو وارننگ دے رہے ہیں کہ اس کے ہر حملے کے جواب میں پہلے سے زیادہ خطرناک حملہ کیا جائیگا۔ تہران یونیورسٹی کے پروفیسر سید محمد مرانڈی نے الجزیرہ پر ایک مغربی صحافی کو انٹرویو دیتے ہوئے کہا ہے کہ ایران نے بہت پہلے ہی سے اسرائیل اور امریکہ دونوں کے مقابلے کی تیاری کر رکھی ہے۔ پروفیسر مرانڈی کے انکشافات کے مطابق ایران نے زیر زمین ایسے شہر بسائے ہوئے ہیں جو ڈرون طیاروں اور بیلسٹک میزائلوں سے اٹے پڑے ہیں۔اسرائیل اور امریکہ مل کر بھی ان سب کو تباہ نہیں کر سکتے۔ مشرق وسطیٰ کے دفاعی امور کے ماہر Scott Ritter  نے الجزیرہ پر دیئے گئے ایک انٹرویو میں کہا ہے کہ اسرائیل کو امریکہ کا مہیا کردہ Iron Dome نظام جو کہ میزائلوں کا راستہ روکنے والی ایک شیلڈ ہے دو تین سو میزائلوں کو ناکارہ بنا سکتا ہے مگر اس کے بعد اس کا Saturation Point آ جاتا ہے اور یہ شیلڈ ایک ہی وقت میں داغے ہوئے چار پانچ سو میزائلوں کا راستہ نہیں روک سکتی‘ ایران نے اگر اسرائیل کے کسی بڑے ممکنہ حملے کے جواب میں سینکروں ڈرون اورسپر سونک میزائل داغ دیئے تو اسرائیل کے شہروں میں اسی طرح عمارتیں زمین بوس ہوں گی جس طرح غزہ اور لبنان میں ہو رہی ہیں۔ اس کے جواب میں اسرائیل بھی ایران پر بھرپور فضائی حملے کرے گا مگراس وقت اہم سوال یہی ہو گا کہ اسرائیل کی End Game کیا ہے۔ U.S. Energy Information Administration جو تیل اور عالمی معیشت کے تعلق پر گہری نگاہ رکھتا ہے کے تجزیہ کاروں کی رائے میں ایران اور اسرائیل کے درمیان اگر ایک بڑی جنگ چھڑ جاتی ہے تو اس کے عالمی معیشت پر اتنے گہرے اثرات مرتب ہوں گے کہ امریکہ اور یورپ مل کر بھی کئی برسوں تک اس کا ازالہ نہ کر سکیں گے۔ اس صورت میں تیل کے ایک بیرل کی قیمت 130 ڈالر تک جا سکتی ہے۔امریکہ اس لئے مشرق وسطیٰ میں کسی بڑی جنگ کی حمایت نہیں کر سکتا کہ اس نے تین برسوں تک مسلسل انٹرسٹ ریٹ بڑھانے کے بعد بمشکل تمام افراط زر پر قابو پایا ہے۔ گذشتہ ماہ فیڈرل ریزرو بینک نے تین سال بعد جب انٹرسٹ ریٹ میں پہلی مرتبہ نصف پوائنٹ کی کمی کی تو عام آدمی سے لیکر کاروباری افراد تک سب نے سکھ کا سانس لیا۔ اب اگر ایران نے خلیج فارس اور آبنائے ہرمز میں بحری جہازوں پر میزائل حملے شروع کر دئیے تو اس کے عالمی معیشت پر تباہ کن اثرات مرتب ہوں گے۔ دنیابھر کو ہونے والی تیل کی سپلائی کا ایک تہائی حصہ خلیج فارس سے ہو کر جاتا ہے۔ یمن کے حوثیوں نے اگر ایک برس سے بحیرہ احمر کا راستہ بند کیا ہوا ہے تو ایران عالمی معیشت کو اس سے کئی گنا زیادہ نقصان پہنچا سکتا ہے۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ امریکہ اور یورپ کب تک اور کس حد تک اسرائیلی عفریت کے گھوڑے کو بے لگام رہنے دیں گے۔