دوستوں کی اہمیت

 روزنامہ آج میں شائع ہونے والے بعض کتابوں سے اقتباس کیلئے قارئین کی جانب سے دوبارہ اشاعت کا کہا جاتا ہے‘ قارئین کی پسند کو مدنظر رکھتے ہوئے آج کا شائع ہونے والا اقتباس مشہور مصنف اور براڈکاسٹر رضا علی عابدی کے نشر پروگرام کا منتخب حصہ ہے جو کہ قارئین کیلئے پیش خدمت ہے۔ انسانی یادوں میں ایک ساتھ کام کرنےوالے اور سرد وگرم حالات میں ساتھ رہنے والوںکی اپنی اہمیت ہوتی ہے تاہم اس کا احساس ان لوگو ں کا زیادہ ہوتا ہے جو حساس دل رکھتے ہیں کچھ اسی طرح کے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے معروف براڈ کاسٹر رضا علی عابدی لکھتے ہےں جس روز میںنے بی بی سی میں قدم رکھا‘ اتو ار کا دن تھا عملے کے تمام بڑے لوگ چھٹی پر تھے اور چھوٹے لوگ پروگرام پیش کررہے تھے چکوال کے اکرم منہاس پروگراموں کے بیچ میں اعلانات کررہے تھے اور پٹنہ کے سید حسن خبریں پڑھ رہے تھے ‘ان دنوں لاجواب لوگ بی بی سی سے وابستہ تھے اطہر علی ‘وقار احمد ‘ضمیرالدین احمد‘ تقی احمد سید‘وسیم صدیقی‘راشد اشرف ‘راشدالغفور اور یونس واسطی یہ سب اعلیٰ پائے کے براڈ کاسٹر تھے‘ عملے میں ایک شخص ریڈیو پاکستان کا ہوا کرتا تھا لیکن جاننے والوں میں ایک قابل ذکر نام مختار زمن کا تھا جب میں آیا وہ جارہے تھے اور ان کا جانا عام لوگوں کے جانے سے مختلف تھا‘یہاں اپنے سرکردہ ساتھیوں کا حال کہتا چلوں ہمارے ساتھیوں میں سب سے سینئر یاور عباس تھے ‘یاور عباس کسی مرحلے پر پاکستان چھوڑ کر لندن آگئے اسوقت بی بی سی کو اردو براڈکاسٹروں کی سخت ضرورت تھی چنانچہ وہ اردو سروس سے وابستہ ہوگئے اور ابھی 88ءیا 89ءسال کی عمر تک وابستہ تھے اس کے بعد حالات بدل گئے اور اردو کے شعبے سے تمام بزرگ فارغ کردیئے گئے‘یاورعباس نے شروع ہی سے اپنی دھاک جمائی اور اس قدیم زمانے میں انگریزی کے تمام بڑے ڈرامے اردو میں ڈھال کر پیش کئے ان میں شیکسپیئر کے ڈرامے خصوصاً قابل ذکر ہےں چند ایک ڈراموں میں بابائے ریڈیو ذوالفقار علی بخاری مرحوم کی آواز بھی شامل تھی میرے ہوتے ہوئے یاور عباس نے دو قابل ذکر پروگرام پیش کئے ان میں سے ایک کا عنوان تھا اردو کے یورپین شاعر’ اور دوسرا دنیا کی تاریخی تقریروں سے ترتیب دیاگیا تھا اس میں تمام تر صدا کاری سعید جعفری نے کی تھی جواپنی اداکاری کی تربیت کی بنا پر آواز کو کرداروں کے مطابق ڈھال لیتے ہےں۔دوسرے سینئر ساتھیوں میں تقی احمد سید تھے وہ بھی اردو سروس کے پرانے رفقا میں سے ایک تھے حالات حاضرہ کے پروگرام پیش کیا کرتے تھے اور وہ جو وضعدار لوگ ہوا کرتے تھے ان کی جیتی جاگتی مثال تھے ان کے بعد اطہر علی اور وقار احمد تھے اطہر علی دہلی کالج کے تعلیم یافتہ تھے‘بہت ذہین اورہنر مند تھے‘ ریڈیو سے حالات حاضرہ کے پروگرام پیش کیا کرتے تھے‘ ذوالفقار علی بھٹو کی پھانسی کے موقع پر انکے پیش کئے ہوئے پروگرام کو بہت شہرت حاصل ہوئی تھی ایک مرتبہ انہوں نے پاکستان کے حالات پر کوئی پروگرام نشر کیا ان دنوں ضیاءالحق فوجی حاکم تھے ذرا ہی دیر بعد ضیاءالحق کا راولپنڈی سے ٹیلی فون آیا اور انہوں نے اطہر صاحب کو مبارکباد دی آخری دنوں میں وہ اردو سیکشن کے سربراہ ہوگئے تھے ان سے پہلے یہ اعزاز صرف سفید فام حضرات کےلئے مخصوص تھااطہر صاحب کے دوستوں کا بڑا حلقہ تھا اور عجب اتفاق ہے کہ دو ایک کے سوا اس حلقے کے سارے احباب رخت سفر باندھ چکے ہےں۔“ اس منتخب اقتباس کا حاصل مطالعہ زندگی کے مختلف مراحل میں ساتھ چلنے اور ساتھ دینے والے افراد کو یاد رکھنا اور ان کی یادوں کو اپنے لئے رہنمائی کا ذریعہ بنانا ہے ۔ ہم میں سے بہت سے ایسے ہیں جو وقت کا دھارا بدلنے کے ساتھ ان افراد کو یکسر بھول جاتے ہیں جو کبھی انتہائی قریب رہے اور مل کر مختلف حالات و واقعات کے شاہد رہے۔ہمیں یہ نہیں بھولنا چاہئے کہ جو لوگ اس وقت ہمارے آس پاس ہیں وہ ہمیشہ نہیں رہیں گے اور یا تو زندگی کا خاتمہ ان کو ہم سے جدا کر سکتا ہے یا پھر دوسرے حالات جدائی کا باعث بن سکتے ہیں تاہم جو لمحے ساتھ گزرے انہیں اگر یاد رکھا جائے تو انسان کو بہت کچھ سیکھنے اور زندگی کی راہوں میں مشکلات کو آسان بنانے کا راستہ مل جاتا ہے یہ بھی ایک ٹھوس حقیقت ہے کہ سیکھنے کا عمل زندگی بھر جاری رہتا ہے اور اس میں ان لوگوں کا اہم کردار ہوتا ہے جو غیر محسوس طور پر اپنی مہارت اور مشورے سے آپ کو نوازتے رہتے ہیں اور یوں آپ جس مقام پر پہنچتے ہیں اس میں ان لوگوں کا اہم کردار ہوتا ہے جو زندگی کے کسی مرحلے میں آپ کے ساتھ رہیں اور آپ کو قیمتی مشوروں اور آراءسے نوازتے رہے۔