روزنامہ آج میں شائع ہونے والے بعض کتابوں سے اقتباس کے لئے قارئین کی جانب سے دوبارہ اشاعت کا کہا جاتا ہے‘ قارئین کی پسند کو مدنظر رکھتے ہوئے آج کا شائع ہونے والا اقتباس مشہور مصنف اور براڈکاسٹر رضا علی عابدی کے نشر پروگرام کا منتخب حصہ ہے جو کہ قارئین کے لئے پیش خدمت ہے‘ ہمارے آس پاس ایسے لوگ اکثر موجود ہوتے ہیں جواہم واقعات کے شاہد ہوتے ہیں اور یہ ایک طرح سے زندہ تاریخ کی حیثیت رکھتے ہیں، تاہم ان سے استفادہ کرنا اور ماضی میں جھانکنے کا وقت کسی کے پاس نہیں ہوتا کیونکہ زندگی بہت تیز ہو گئی ہے۔ ایسی ہی ایک ملاقات کا تذکرہ رضا علی عابدی اپنی سرگزشت میں کرتے ہوئے لکھتے ہیں ”پرانے لاہور کا حال سننے کو جی چاہا تو شہر میں میاں امیر الدین صاحب سے زیادہ موزوں شخصیت کوئی نہ تھی میاں صاحب کا گھرانا بہت پرانا ہے 1985ء میں خود ان کی عمر چورانوے برس تھی 1911ء میں وہ گریجویٹ ہوئے تھے خلافت تحریک میں وہ سرگرم تھے اور پاکستان کی تحریک میں آگے آگے تھے میں میاں امیر الدین
صاحب سے ملا تو خوشی ہوئی شہر لاہور کی طرح وہ بھی ضعیفی کے باوجود بہت زندہ دل تھے میں نے پوچھا کہ آپ کی نوجوانی کے دنوں میں شہر لاہور کتنا بڑا تھا؟میاں صاحب نے بتایا اس وقت آبادی سرکلرروڈ کے اندر تھی آبادی لاکھ ڈیڑھ لاکھ ہوگی چھوٹا راوی کے پل کے پاس جنگلی مرغابیاں اترا کرتی تھیں اب جہاں تک نگاہ جاتی ہے‘وہاں تک آبادی جاتی ہے بتانے لگے کہ شروع میں کھاتے پیتے گھرانے ہندوؤں اور خصوصاً کشمیری پنڈتوں کے تھے‘مسلمانوں کے صرف چار پانچ صاحب حیثیت خاندان تھے ساری تجارت ہندوؤں کے ہاتھ میں تھی‘اس وقت مسلمان یا تو سبزی بیچتے تھے یا درزی تھے یا
موچی تھے اور ان کی مالی حالت ایسی تھی کہ کم سے کم نوے فیصد مسلمانوں کی جائیداد گروی ہوگئی تھی‘ ان ہی دنوں ایک بلاتی سا ہوکار تھا میرا اچھا واقف تھا برا آدمی نہیں تھا اپنی بات پر اور معاملے پر قائم رہتا تھا‘ میں نے اس سے کہہ سن کر بڑے بڑے لوگوں کے ہزاروں روپے چھڑوا دیئے‘تعلیم کی یہ حالت تھی کہ میں 1906ء میں گورنمنٹ کالج میں داخل ہوا‘ اس وقت پانچ سو میں سے صرف اسی طالب علم مسلمان تھے‘ استادوں میں صرف ایک مولوی ابراہیم عربی کے استاد تھے‘ باقی سب ہندو اور انگریز تھے‘میاں امیر الدین صاحب اپنے دادا کے بارے میں بتارہے تھے‘ لاہور گورنمنٹ کالج 1875ء میں انہوں نے بنایا تھا‘بڑی ہی ٹھوس عمارت ہے وہ ٹھیکیدار تھے مگر بہت دیانتدار تھے‘میری شادی پر انہوں نے علاقے کے ہر شخص کو دوسیر مٹھائی تقسیم کی تھی‘ بہت سستا زمانہ تھا‘ شادی کے کھانے پر فی کس چار آنے خرچ ہوتے تھے‘جس میں پلاؤ‘
دہی‘قورمہ‘زردہ اور فرنی وغیرہ ہوتی تھی‘ میاں صاحب نے کھانے والوں کا حال بھی مزے لے کر سنایا کہنے لگے‘اس وقت لوگوں میں عزت نفس بہت تھی‘ شادی بیاہ میں دسترخوان بچھائے جاتے تھے اور ان پر کھانا چن دیا جاتا تھا کیامجال کہ کوئی مہمان کھانے کو ہاتھ بھی لگائے‘صاحب خانہ کہتا تھا‘ بسم اللہ تب کھانا شروع ہوتا تھا اور آج کل لوگ ایک دوسرے کے آگے سے ڈونگے کھینچتے ہیں‘میاں امیر الدین صاحب تحریک پاکستان میں پیش پیش تھے‘ لاہور میں 23 مارچ 1980ء کو قرار داد پاکستان منظور ہونے کا منظر انہوں نے بہت قریب سے دیکھا‘میں نے پوچھا کہ اسکے بعد مسلمانوں کی کیا کیفیت تھی کہنے لگے بات یہ ہے کہ اس سے پہلے مسلمانوں کے پاس کوئی Objective نہیں تھا وہ مل گیا پھر تو کیفیت بالکل بدل گئی‘ہرطرف لے کے رہیں گے پاکستان کا نعرہ تھا‘ اس مختصر اقتباس کا حاصل مطالعہ بزرگوں کے ساتھ وقت گزار کر ان سے ماضی کے اہم اور سبق آموز واقعات کے حوالے سے جاننے کا شوق ہے جس سے نئی نسل دور ہوتی جار ہی ہے۔