جنگ دہشت گردی کے بیس برسوں کے دوران افغانستان امریکہ کے قومی اخبارات کے پہلے صفحے کی نمایاں خبر ہوتا تھا۔اس دوران میں امریکی صحافیوں اور مورخین نے افغان جنگ پر بیسیوں کتابیں لکھیں اور خوب داد سمیٹی۔ دسمبر 2012 میں ہالی ووڈ کی ڈائریکٹر Kathryn Bigelow نے اسامہ بن لادن کے دس سال پر محیط امریکی خفیہ ایجنسی سی آئی اے کے تعاقب اور مئی 2011میں اس کی ہلاکت پر Zero Dark Thirty کے نام سے ایک فلم بنا کر شہرت اور دولت کمائی۔ پھراگست 2021ء میں امریکی انخلاء کے بعد چند مہینوں تک افغانستان کے بدلتے ہوئے حالات کا تذکرہ جاری رہا۔ اس کے بعد یہ تباہ حال ملک ویت نام کی طرح ایک قصہ پارینہ بن گیا۔آج سے سوا تین برس پہلے کابل میں طالبان کے اقتدار سنبھالنے کے بعد بھی امریکہ میں اس بھولی بسری جنگ پر کتابیں لکھی جاتی رہیں۔ ان تصنیفات کا موضوع زیادہ تر امریکہ کی شکست کے اسباب ہوتا تھا۔ ان میں زیا دہ شہرت General Daniel P. Bolger کی کتاب Why We Lost کو ملی۔ جنرل بولگر نے چار برسوں تک عراق اور افغانستان کی جنگ میں کئی مقامات پر امریکی فوج کی قیادت کی تھی۔ وہ محرم راز درون خانہ تھے اس لئے ان کی کتاب کو خاصی پذیرائی ملی۔ آج کل کبھی کبھار امریکہ کے قومی اخبارات کے اندرونی صفحات پر افغانستان کی موجودہ صورتحال پر ایک آدھ تجزیہ شائع ہو جاتا ہے۔ یہ مضامین زیادہ تر طالبان حکومت کی سخت گیر پالیسیوں‘ معاشی بد حالی‘ خواتین پر ہونے والے مظالم‘ بھوک‘ بیروزگاری‘ قحط سالی‘ زلزلوں اور سیلابوں کے بارے میں ہوتے ہیں۔ ان اخبارات میں ابھی تک پاکستان اور افغانستان کے تعلقات میں بڑھتی ہوئی حالیہ کشیدگی کے بارے میں کوئی رپورٹ شائع نہیں ہوئی۔ اس کی وجہ یہ ہو سکتی ہے کہ پاکستان کی مغربی سرحد پر جو تشویشناک صورتحال پیدا ہوئی ہے اسے منظر عام پر آئے زیادہ عرصہ نہیں ہوا۔ منتخب صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے بھی ابھی تک جنوبی ایشیا کے کسی بھی ملک کے بارے میں کوئی پالیسی بیان نہیں دیا۔ ان کے زیادہ تر بیانات یوکرین جنگ اور غزہ کی صورتحال کے بارے میں ہوتے ہیں۔ لیکن افغانستان اب زیادہ دیر تک امریکہ کی خارجہ پالیسی کے راڈار سے غائب نہیں رہ سکتا۔ امریکہ اور افغانستان کے مابین ہونے والا دوحہ معاہدہ ڈونلڈ ٹرمپ کی پہلی مدت صدارت میں ہو اتھااور اس کے بعد بائیڈن انتظامیہ نے جس بھونڈے انداز میں امریکی افواج کے انخلا ء کے عمل کو مکمل کیا تھا اس پر ڈونلڈ ٹرمپ مسلسل تنقید کرتے رہے ہیں اس لئے امریکہ افغانستان تعلقات میں ایک نیا ابھار یقینی امر ہے۔ ان کی نوعیت کیا ہوتی ہے اس کے بارے میں وثوق سے تو کچھ نہیں کہا جا سکتا مگر خیال آرائی ضرور کی جا سکتی ہے۔گزشتہ سال نومبر میں امریکی تھنک ٹینک Global And National Security Institute نے افغانستان پر ایک طویل کانفرنس کا انعقاد کیا۔ اس میں ایک بڑی تعداد میں ممتاز صحافیوں‘ محققین‘ سفارت کاروں اور ریٹائرڈ جرنیلوں نے شرکت کی۔ لگ بھگ نصف درجن یونیورسٹیوں کے تعاون سے منعقد ہونے والی اس کانفرنس کا عنوان Rethinking Afghanistan تھا‘ اس کے ٹا ئیٹل سے ظاہر ہوتا ہے کہ امریکہ کے دفاعی حکمت کار افغانستان کے بارے میں ایک نئی سوچ اور ایک نئی پالیسی کی ضرورت کو محسوس کر رہے ہیں۔ دن بھر جاری رہنے والی اس کانفرنس کا اہم ترین حصہ وہ تھا جس میں امریکہ کی شکست کے اسباب پر سفارت کاروں اور سابقہ عسکری قیادت نے اپنی آراء کا اظہار کیا اور ان اسباق کی نشاندہی کی جو سیکھے گئے اور جو نہ سیکھے گئے۔ زلمے خلیل زاد جو اقوام متحدہ‘ عراق اور افغانستان میں امریکی سفارتکار رہنے کے علاوہ دوحہ مذاکرات میں بھی امریکہ کے خصوصی سفیر تھے نے دوحہ معاہدے کے بارے میں چند چشم کشا انکشافات کئے جن کا ذکر آگے چل کر ہو گا۔ اس کانفرنس کی گفتگو اور سفارشات کس حد تک ڈونلڈ ٹرمپ کی خارجہ پالیسی کا حصہ بنتی ہیں اس کے بارے میں یقین سے کچھ نہیں کہا جا سکتا مگر انہیں سٹیٹ ڈیپارٹمنٹ کی نئی ٹیم کے لئے نظر انداز کرنا اس لئے مشکل ہو گا کہ اس کانفرنس کے زیادہ تر شرکاء کا تعلق ری پبلکن پارٹی کے ہم خیال حلقوں سے تھا۔ میرے نقطہ نظر سے اس کانفرنس کے اہم ترین مقررین میں دوسابقہ سفارت کاروں کے نام آتے ہیں ان میں سے ایکMichael McKinleyہیں جو 2014ء سے 2016 ء تک کابل میں امریکہ کے سفیر تھے اور دوسرے زلمے خلیل زاد ہیں جو افغان نژاد ہونے اور ری پبلکن پارٹی کے پرانے وفادار ہونے کی حیثیت سے بھی اور دوحہ مذاکرات میں ایک کلیدی کردار ادا کرنے کے حوالے سے بھی خاصی اہمیت رکھتے ہیں۔ زلمے خلیل زاد نے جوانکشافات کئے وہ توجہ طلب ہیں۔ دوحہ مذاکرات کے حوالے سے انہوں نے کہا کہ ان کے شروع ہونے سے پہلے ہی ٹرمپ حکومت اس نتیجے پر پہنچ چکی تھی کہ امریکہ کے لئے اس جنگ میں آگے بڑھنے کا کوئی راستہ نہیں رہا اوراس جنگ کا کوئی فوجی حل موجود نہیں اس لئے اب امن کی پالیسی کو بڑھانا ہو گا۔ خلیل زاد نے ایک اہم بات یہ بھی کہی کہ امریکہ نے جان بوجھ کر اس معاہدے کو "Ambiguous" یعنی مبہم رکھا کیونکہ اسے خدشہ تھا کہ طالبان کہیں مذاکرات کا بائیکاٹ نہ کر دیں۔ اس کی وضاحت یہ ہو سکتی ہے کہ امریکہ نے طالبان کے سامنے اس لئے کڑی شرائط نہ رکھیں کہ وہ انہیں واک آؤٹ کا موقع نہیں دینا چاہتا تھا۔ خلیل زاد کے مطابق ان دنوں افغانستان میں عسکری صورتحال تیزی سے تبدیل ہو رہی تھی۔ افغان نیشنل آرمی کی غیر متوقع پسپائی اور اشرف غنی کی مذاکرات میں شامل نہ کئے جانے کی وجہ سے ناراضگی امریکی سفارت کاروں کی ٹیم پر ایسے دباؤتھے جو اس جنگ کے فوری اختتام کے متقاضی تھے۔ امریکہ نے اس جنگ سے کیا سبق سیکھے اور اب اسکے طالبان حکومت سے تعلقات کی نوعیت کیا ہو گی اس پر اگلے کالم میں بات ہو گی۔
اشتہار
مقبول خبریں
دہشت گرد‘ سوٹ اور ٹائی
عتیق صدیقی
عتیق صدیقی
امریکہ افغانستان تعلقات
عتیق صدیقی
عتیق صدیقی
امریکہ افغانستان تعلقات (آخری حصہ)
عتیق صدیقی
عتیق صدیقی