آجکل امریکہ ااور افغانستان کے تعلقات کی نوعیت اس حد تک بدل چکی ہے کہ فروری 2020ء کا دوحہ معاہدہ بہت پرانے زمانے کی بات لگتا ہے۔ اب یہ وثوق سے کہا جا سکتا ہے کہ امریکہ کی اس معاہدے سے کوئی کمٹمنٹ نہ تھی اسے بیس برس تک جاری رہنے والی اس جنگ کے اختتام کے لئے ایک بہانے کی ضرورت تھی جس کا بندوبست دوحہ میں کر دیا گیا۔ اگست 2021ء میں جس افراتفری‘ ہیجان اور سراسیمگی کے عالم میں امریکی سپاہ کا انخلاء مکمل ہوا اس سے صاف نظر آ رہا تھا کہ امریکہ ہر قیمت پر اس کمبل سے جان چھڑانا چاہتا تھا۔ کابل ائیر پورٹ سے پرواز کرنے والے چند آخری امریکی جہازوں کے پروں کے ساتھ چپکے ہوئے لوگوں کی حالت زار کے مناظر دیر تک بائیڈن انتظامیہ کا منہ چڑاتے رہے تھے۔اس خفت اور شرمندگی سے جان چھڑانے کے لئے صدر بائیڈن نے گذشتہ چار برسوں میں بھول کر بھی دوحہ معاہدے کا نام نہیں لیا۔ پاکستان نے کئی مرتبہ امریکہ کی توجہ اس امر کی طرف مبذول کرائی کہ دہشت گرداس معاہدے کی خلاف ورزی کرتے ہوئے افغانستان کی سرزمین کو ہمسایہ ممالک پر حملوں کے لئے استعمال کر رہے ہیں مگر امریکہ نے کوئی توجہ نہ دی۔ اب اسلام آباد کے نیوز میڈیا میں یہ خبر تواتر کے ساتھ آ رہی ہے کہ امریکہ گذشتہ تین برسوں سے ہر ہفتے افغانستان کو چالیس ملین ڈالر کی خطیر رقم دے رہا ہے۔بظاہر تو یہ امریکہ کی افغان پالیسی کا ایک کھلا تضاد ہے مگر حقیقت یہ ہے کہ افغانستان سے اس نوعیت کا تعلق در اصل امریکہ کی سوچی سمجھی حکمت عملی کا نتیجہ ہے۔ ایک دنیا جانتی ہے کہ اس وقت افغانستان کئی دہشت گرد تنظیموں کی آماجگاہ بنا ہو اہے۔ طالبان حکومت اگر چہ کہ ان میں سے اکثر کے ساتھ سختی سے نمٹ رہی ہے مگر ان کی موجودگی امریکہ کے لئے نہایت تشویشناک ہے۔ افغانستان سے اٹھنے والے دہشت گردی کے اس پرانے روگ کا امریکہ نے یہ علاج ڈھونڈا ہے کہ کسی بیک ڈور چینل سے طالبان کی مالی امداد کی جائے تا کہ وہ دہشت گردوں کا مقابلہ کر سکیں۔ اب ایک طرف امریکہ کے خوف سے دنیا کا کوئی ملک بھی طالبان حکومت کے ساتھ سفارتی تعلقات قائم نہیں کر سکتا اور دوسری طرف امریکہ بڑی ڈھٹائی سے ہر ہفتے ڈالروں کے بھاری بھرکم تھیلے کابل بھیج رہا ہے۔ اور یہ بھی ایک کھلا راز ہے کہ ایک طرف امریکہ نے افغانستان کے نو ارب ڈالر ضبط کئے ہوئے ہیں اور دوسری طرف اس کی اپنی ایجنسی یو ایس ایڈ کی ویب سائٹ کے مطابق واشنگٹن نے گذشتہ تین برسوں میں طالبان حکومت کو اکیس ارب ڈالر کی امداد دی ہے۔ یہ اگر ایک تضاد اوردوحہ معاہدے کی خلاف ورزی ہے تو چین‘ روس یا دوسرا کوئی ملک اس کے خلاف احتجاج کیوں نہیں کرتا۔اقوام عالم کی اس خاموشی کی ایک وجہ تو یہ ہے کہ امریکہ یہ کہہ رہا ہے کہ وہ بھوک سے بلکتے ہوئے افغان عوام کو مصیبت کے ان لمحات میں اکیلا نہیں چھوڑ سکتا۔ یو ایس ایڈ کی ویب سائٹ یہ بھی کہتی ہے کہ یہ رقم خوراک اور ادویات کی صورت میں مغربی ممالک کی این جی اوز تقسیم کر رہی ہیں۔ دوسری وجہ یہ ہے کہ چین اور روس نہیں چاہتے کہ افغانستان ایک مرتبہ پھر غیر مستحکم ہو کر ہمسایہ ممالک کے لئے ایک خطرہ بن جائے۔ یو ایس ایڈ کو اس بات سے غرض نہیں کہ اس خطیر رقم کا آخری فائدہ تو طالبان حکومت ہی کو ہو رہا ہے۔امریکی دانشور کسی معاملے کی تہہ تک پہنچنے کے لئے Original Sin یا گناہ اول کی نشاندہی ضروری سمجھتے ہیں۔ نومبر کے مہینے میں Rethinking Afghanistan کے موضوع پر ہونے والی طویل کانفرنس میں Michael McKinley جو کئی برسوں تک مختلف ممالک میں امریکی سفیر رہنے کے علاوہ 2014ء سے 2016ء تک کابل میں بھی سفیر رہ چکے ہیں‘نے اس کانفرنس میں کہا The original sin was to elevate counter terrorism to an existential threat which it was not یعنی گناہ اول دہشت گردی کے مقابلے کو زندگی اور موت کے مسئلے تک بڑھا دینا تھاجو کہ یہ نہ تھا۔مائیکل میکنلے نے اس بات کی وضاحت کرتے ہوئے کہا This cause was not ours to take onیعنی یہ ہمارا کام نہ تھا کہ ہم اس مقصد کے لئے ایک جنگ چھیڑ دیتے۔ امریکی عوام کایک بڑا حصہ سابقہ صدر جارج بش کو اسی لئے ناپسند کرتا ہے کہ اس نے عراق اور افغانستان میں اپنے ملک کو خواہ مخواہ پھنسا دیا۔ مائیکل میکنلے نے کہا کہ ہم بیس برس تک اپنے لوگوں سے جھوٹ بولتے رہے کہ ہم افغانستان میں صاف اور شفاف الیکشن کرا کے جمہوریت قائم کر دیں گے‘ ہم آخر وقت تک افغان نیشنل آرمی کو ایک بہادر اور وفادار فوج کہتے رہے اور جب وقت آیا تو یہ فوج ہماری مدد کے بغیر ایک دن بھی میدان جنگ میں نہ ٹھہر سکی۔ امریکی سفیر نے دوحہ معاہدے کے بارے میں کہا کہ یہ کسی بھی صورت قابل عمل نہیں ہے۔ اس کا مفہوم یہی ہے کہ امریکہ اس معاہدے کی کسی بھی شق کو منوانے کی طاقت نہیں رکھتا۔ جب بیس برس تک لڑی جانے والی جنگ کو ”گناہ اول“ کا لبادہ اوڑھا دیا گیاہے تو پھر اسے ختم کرنے والے معاہدے کی کیا اہمیت ہو سکتی ہے۔منتخب صدر ٹرمپ کے ارب پتی دوست ایلون مسک جو ایک اہم وزارت سنبھالنے والے ہیں‘نے چند دن پہلے کہا کہ افغانستان کو ملنے والی امداد کو بند کر دیا جائے گا۔ ڈونلڈ ٹرمپ کی پہلی مدت صدارت سے واقفیت رکھنے والے جانتے ہیں کہ ان کے ٹویٹس اور بیانات بہت کم کسی واضح پالیسی کی صورت اختیار کرسکے تھے۔ میری رائے میں امریکہ جب تک نائن الیون کو نہیں بھولتا اس وقت تک وہ افغانستان کو بھی نہیں بھولے گا۔ یو ایس ایڈ کے ذریعے نہ سہی ڈونلڈ ٹرمپ کسی دوسرے طریقے سے طالبان کے ساتھ تعلقات برقرارکھے گا۔ کوئی بھی امریکی صدر افغانستان سے بے خبر اور لا تعلق رہنے کی پالیسی اختیار نہیں کر سکتا۔ امریکہ دوسری مرتبہ طالبان سے جنگ کرنے کی غلطی نہیں کر ے گا‘ اس لئے اسے اس دشمن جاں سے درون خانہ ہی سہی دوستی کی پینگیں بڑھانا پڑیں گی۔
اشتہار
مقبول خبریں
دہشت گرد‘ سوٹ اور ٹائی
عتیق صدیقی
عتیق صدیقی
امریکہ افغانستان تعلقات
عتیق صدیقی
عتیق صدیقی
امریکہ افغانستان تعلقات (آخری حصہ)
عتیق صدیقی
عتیق صدیقی