بیس جنوری کو مختلف تقریبات میں مصروف رہنے کے بعد جب صدر ٹرمپ اگلے روز وائٹ ہاؤس کے اوول آفس میں چار سال پہلے چھوڑی ہوئی کرسی صدارت پر دوبارہ برا جمان ہوئے تو وہ اپنی خوشی اور تفاخر کو نہ چھپاسکے۔ اس روز دنیا بھر میں لاکھوں لوگوں نے ان کے دلی جذبات ان کے چہرے پر امڈتے ہوے دیکھے۔ اس تاریخی لمحے وہ اقوام عالم کو صلح‘ دوستی اور امن و آشتی کا پیغام دے سکتے تھے مگر انہوں نے وہی کچھ کہا کہ جس کا انہوں نے وعدہ کر رکھا تھا۔ یہ وہ بات تھی جس نے ان کے جاننے والوں کو کسی حیرانگی میں مبتلا نہ کیا۔ یہ وہ بات بھی تھی جسے ان کے مداح سننا چاہتے تھے اور جسے ان کے ناقدین سننے کی توقع کر رہے تھے۔ وہ بات یہ تھی کہ We are going to do things that people will be shocked at. یعنی ہم ایسے کام کریں گے جس سے لوگ چونک اٹھیں گے(یا جن سے لوگوں کو صدمہ ہو گا۔)وائٹ ہاؤس میں جب بھی کوئی نیا صدر آتا ہے تو لوگ کچھ نئی اور چونکا دینے والی باتیں سننے کے لئے ذہنی طور پر تیار ہوتے ہیں۔ ڈونلڈ ٹرمپ نے اپنے صدارتی دفتر میں داخل ہونے سے ایک دن پہلے ہی کیپٹل ہل میں حلف اٹھانے سے کچھ دیر بعد ایک ہال میں کرسی میز لگا کر درجنوں صدارتی احکامات پر دستخط کر دیئے تھے۔ ان میں سے چند ایسے تھے جو سپریم کورٹ اور کانگرس کے کئے ہوئے فیصلوں کے خلاف تھے اور کچھ اخلاقی ضابطوں کی رو گردانی کا پتہ دے رہے تھے۔ چار برس پہلے جن لوگوں نے کیپٹل ہل کی عمارت پر دھاوا بولا تھا اور جنہیں عدالتوں نے طویل المیعاد سزائیں دے رکھی تھیں انہیں صدر ٹرمپ نے بہ یک جنبش قلم معاف کرنے کے علاوہ یہ حکم بھی جاری کر دیاکہ انہیں بیس جنوری کی رات ہی کو رہا کر دیا جائے۔ اس کے علاوہ وہ لوگ جو ان کی پہلی مدت صدارت میں ان کے وزراء اور مشاہیر رہے تھے اور بعد ازاں ان کے خلاف ہو گئے تھے‘سے جائز سرکاری آسائشیں بھی فوراً واپس لے لی گئیں۔ سوشل میڈیا ایپ‘ ٹک ٹاک جو چین کی ایک کمپنی Byte Dance کی ملکیت ہے کو کانگرس اور
سپریم کورٹ دونوں نے نیشنل سکیورٹی کے لئے خطرہ قرار دے کر بند کرنے یا کسی امریکی کمپنی کو فوراً فروخت کرنے کا حکم دیا تھا۔ اسے صدر ٹرمپ نے ایک ایگزیکیٹو آرڈر کے ذریعے نوے دن تک بحال کر کے کوئی امریکی خریدار ڈھونڈنے کی اجازت دے دی۔ جوبیس جنوری کی رات صدر ٹرمپ نے اچانک بارہ انسپکٹرز جنرلز کو کرپشن اور اختیارات کے غلط استعمال کے الزامات لگاکرسبکدوش کر دیا۔ یہ حکم نامہ اس قانون کی صریحاًخلاف ورزی تھی جس کے تحت صدر امریکہ اس درجے کے کسی بھی اعلیٰ افسرکو بر طرف کرنے کے لئے کانگرس کو تیس دن کا نوٹس دینے اور اس نوع کے فیصلے کی وجوہات بھی بیان کرنے کا پابند ہوتا ہے۔ امریکی نیوز میڈیا نے اس حیران کن فیصلے کو ڈھائی سو برس پرانے امریکی نظام حکومت کی چولیں ہلا دینے والا اقدام قرار دیا ہے۔ ان میں سے بعض فیصلوں کو عدالتیں منسوخ کر دیں گی مگر انہیں آخری فیصلے کے لئے سپریم کورٹ میں جانے تک ایک طویل عرصہ لگے گا۔ان فیصلوں کا تعلق صدر ٹرمپ کے داخلی ایجنڈے سے تھا۔ خارجہ پالیسی کے محاذ پر انہوں نے جو بیانات دیئے ہیں انہیں ناقدین دنیا کا ایک نیا نقشہ بنانے کی کوشش قرار دے رہے ہیں۔ کوئی مانے یانہ مانے صدر ٹرمپ نے گلف آف میکسیکو کا نام گلف آف امریکہ رکھ دیا ہے۔ کینیڈا کو امریکہ کی اکیاون ویں ریاست بننے کا کہہ دیا گیا ہے اور ایسا نہ کرنے کی صورت میں اسے شدید معاشی نقصانات اٹھانے کی دھمکی بھی دے دی گئی ہے۔ پاناما کینال کو چین کے جہازوں کی آمدو رفت کی وجہ سے امریکہ کے لئے خطرہ قرار دے کر صدر ٹرمپ نے اسے امریکی
ملکیت میں شامل کر نے کا اشارہ دے دیا ہے۔ ڈنمارک کے علاقے گرین لینڈ کو امریکہ کی نیشنل سکیورٹی کے لئے ضروری قرار دیتے ہوئے ڈونلڈ ٹرمپ کی سلطنت میں شامل ہو جانے کا حکم بھی دے دیا گیا ہے۔ ان تمام باتوں سے زیادہ چونکا دینے والی بات یہ ہے کہ صدر ٹرمپ نے اردن کے بادشاہ عبداللہ کو فون کر کے کہا کہ وہ اہل غزہ کو اپنے ملک میں آباد کرلیں کیونکہ غزہ تو اب ایک بہت بڑا Demolition Site یعنی کہ تباہ شدہ ملبے کا ڈھیر بن چکا ہے۔ صدر ٹرمپ نے یہ بھی کہا کہ وہ مصر کے صدرعبدل فتح السیسی سے بھی کہیں گے وہ غزہ کے لوگوں کو صحرائے سینا میں آباد کر لیں۔ نہ جانے صدر ٹرمپ کو یہ معلوم بھی ہے کہ نہیں کہ غزہ کی آبادی تئیس لاکھ ہے اور اردن میں پہلے ہی سے بیس لاکھ فلسطینی آباد ہیں۔ مصر نے بھی کہہ رکھا ہے کہ فلسطینیوں کو اگر غزہ سے بیدخل کر کے اس کے علاقے میں منتقل کرنے کی کوشش کی گئی تو وہ 1979ء کا مصر اسرائیل امن معاہدہ منسوخ کر دے گا۔ اس معاہدے کے تحت مصر غزہ کی سرحد کو عسکریت پسند تنظیموں کی در اندازی سے محفوظ رکھنے کی یقین دہانی کرا چکا ہے۔ امریکہ اس کے عوض ہر سال مصر کو 1.3 بلین ڈالر کی معاشی اور فوجی امداد دے رہا ہے۔ اس سے پہلے 1848ء میں امریکہ نے ایک طویل جنگ کے بعد میکسیکو سے ایک امن معاہدہ کیا تھا جس کے تحت اس نے اس ہمسایہ ملک کے پچپن فیصد حصے پر قبضہ کر لیا تھا۔ اس غصب شدہ علاقے میں کیلی فورنیا‘ نواڈا‘ یوٹااور نیو میکسیکو کی ریاستیں شامل تھیں۔ اس کے علاوہ ایریزونا‘ کولوراڈو‘ اوکلا ہوما‘ کینساس اور ویومنگ کے وسیع علاقوں کو بھی اسی معاہدے کے تحت امریکہ میں شامل کر لیا گیا تھا۔ اس کے بعد 1898ء میں امریکہ نے طاقت کے زور پر Puerto Rico اور Guamکے جزیروں پر بھی قبضہ کر لیا تھا۔ اس اعتبار سے صدر ٹرمپ دنیا کے نقشے کو بدلنے والے پہلے امریکی صدر نہیں ہیں۔ اب اکیسویں صدی میں صدر ٹرمپ لاطینی امریکہ‘ یورپ اور مشرق وسطیٰ کے نقشوں میں تبدیلی کر کے دنیا کو چونکا دیں گے۔