روزنامہ آج میں شائع ہونے والے بعض کتابوں سے اقتباس کیلئے قارئین کی جانب سے دوبارہ اشاعت کا کہا جاتا ہے‘ قارئین کی پسند کو مدنظر رکھتے ہوئے آج کا شائع ہونے والا اقتباس مشہور مصنف اور براڈکاسٹر رضا علی عابدی کے نشر پروگرام کا منتخب حصہ ہے جو کہ قارئین کیلئے پیش خدمت ہے۔ایک مقام پر وہ لکھتے ہیں کہ میں داؤد خیل‘کالا باغ اور کمرمشافی کے علاقے دیکھنے جارہا تھا میری ٹرین نے ماڑی انڈس پہنچ کردم توڑ دیا کیونکہ وہ اسکا آخری سٹیشن تھا میں ٹرین سے اترا آگے آگے میرا تھیلا اٹھائے ہوئے میرا نوجوان میزبان تھا گاڑی سے اترنے والے مسافر قلیوں سے مال اسباب اٹھواتے ہیں سامنے کے ہوٹلوں میں کھانا کھاتے ہیں اور ریلوے لائن کے کنارے کنارے کھڑی سوزوکی ویگنوں میں سوار ہوکر اپنے اپنے ٹھکانوں کو جاتے ہیں ویگن والے ایک ایک مسافر کا دامن اور آستینیں پکڑ کر اپنی اپنی گاڑی کی طرف کھینچ رہے تھے ہم بھی اس گاڑی میں بیٹھ گئے جو ہمیں اگلے شہر لے جاتی جہاں سے ہمیں کمرمشافی کی بس ملتی ہماری ویگن روانہ ہوئی اور دریائے سندھ پر انگریزوں کے زمانے کے آہنی پل پر چلنے لگی پل پر سڑک نہیں تھی‘ تختے بچھے تھے ویگن کے پہیوں کے نیچے آنے والے ایک ایک تختے نے شور مچامچا کر اپنے ہونے کی گواہی دی۔اچانک نگاہ دریائے کے پار گئی تو دریا کے کنارے چراغاں نظر آیا نیچے دریا تھا اس کے ساحل پر شاید پہاڑیاں تھیں اور ان پہاڑیوں پر غالباً قندیلیں روشن تھیں اوپر تلے‘آگے پیچھے جیسے دیئے چن دیئے گئے ہوں اور پھر ایک ایک روشنی نیچے دریا میں سایہ بن کر لہرا رہی تھی دریائے سندھ کے ساحل کی رات کہیں بھی اتنی دلکش نہ تھی میں نے اپنے میزبان سے پوچھا اس اجلی بستی کا کیا نام ہے؟جواب ملا کالا باغ۔میں سہم کررہ گیا جس سرزمین کے مقدر میں جاگیرداری اپنے سارے لوازمات کیساتھ لکھ دی گئی ہو وہ رات کے اندھیرے میں آنکھوں کو اتنا دھوکا دے سکتی ہے میں یہ سوچ کر حیران تھا ہماری ویگن دریا پار اتر گئی اور اونچی نیچی سڑکوں پر دوڑتی ہوئی ایک قصبے میں رک گئی اچانک ویگن کا کنڈیکٹر کسی جاگیردار کی طرح چنگھاڑا ’گاڑی اس سے آگے نہیں جائے گی اب ہم سڑک کے کنارے کھڑے ہوکر کسی دوسری سواری کا انتظار کرنے لگے میرا میزبان ہر ویگن کو ہاتھ دکھا کر رکنے کی درخواست کرنے لگا کچھ دیر بعد ایک ویگن رکی ڈرائیور نے اتر کر پچھلادروازہ کھولا اور تمام مسافروں سے کہا‘بیٹھ جائیے میں بھی سب کی طرح سرجھکا کر ویگن میں داخل ہوگیا لیکن اس بار ڈرائیور کے حکم کی تعمیل نہ کرسکا اور بیٹھ نہیں سکا وہ مسافروں کو نہیں مویشیوں کو لانے لے جانیوالی ویگن تھی اس کے اندر بیٹھنے کی نہیں صر ف کھڑے ہونے کی گنجائش تھی ذرا دیر بعد وہ قصبہ آگیا جہاں سے کمرمشافی کی بس ملتی ہے ویگن کے ڈرائیورنے ہمیں اتار دیا ہم نے کرایہ دینا چاہا اس نے لینے سے انکار کردیا‘اب ہم جس بستی میں اترے وہ بارونق تھی روشنی بھی تھی‘چائے خانے بھی تھے ان میں گراموفون ریکارڈ بھی بج رہے تھے ہم خوش تھے کہ ذرا دیر بعد کمرمشافی پہنچیں گے وہ اس سے بھی بڑا قصبہ ہوگا وہاں اس سے بھی زیادہ رونق اور اس سے بھی زیادہ روشنی ہوگی اور ہمارا انتظار ابھی طول کھینچنے ہی والا تھا کہ بس آگئی اچھی خاصی چمکدار‘ طاقتور اور مضبوط بس۔ایک اور مقام پر لکھتے ہیں کہ پھر وہی دریائے سندھ کا کنارہ ہے اور وہی دونوں جانب لداخ کے اونچے بنجر پہاڑ جن کے دامن میں ہر طرف پتھر بکھرے ہیں اور گھاس کا ایک تنکا بھی نظر نہیں آتا۔ لوگ کہتے ہیں کہ چاند پر اتر کر اس کا نظارہ کرنا مشکل ہو تو جا کر لداخ کی زمین دیکھ لو۔مگر میں چاند جیسی زمین نہیں ٗچاندی جیسا پانی دیکھنے لداخ گیا تھا ٗ سرحد پار تبت کے علاقے میں کیلاش کی پہاڑیوں سے نکل کر دریائے سندھ یہاں آگیا ہے اور میں ایک چھوٹے سے گاؤں میں آپہنچا ہوں جو دیکھنے میں دریائے سندھ کے کنارے لیکن حقیقت میں ایک پہاڑی نالے کے قریب آباد ہے ٗدریا کافی نیچے گھاٹی میں ہے اور یہ نالہ جاکراس میں گر رہا ہے ٗ یہاں کچھ درخت لگے ہیں ٗچھ کھیت اُگے ہیں جنہیں وہ دریا نہیں ٗ یہ نالہ سیراب کر رہا ہے۔
اشتہار
مقبول خبریں
پاکستان کے شہر اور انکی تاریخ
آج کی بات
آج کی بات
کوہ پیمائی‘جاپانیوں کا دلچسپ مشغلہ
آج کی بات
آج کی بات
ایک دلچسپ سفر کی روداد
آج کی بات
آج کی بات
کسی ملک پر قبضے کی بنیاد
آج کی بات
آج کی بات
چھوٹی باتوں سے والہانہ لگاؤ
آج کی بات
آج کی بات