عمران خان: غیریقینی مستقبل

تحریک انصاف کے کل کے حوالے سے پارٹی رہنماؤں کو بھی نہیں پتہ کہ کیا ہو گا،عمران خان جیل میں ہیں، نہ فوج سے نہ ہی حکومت سے کوئی بات چیت ہو رہی ہے،  ابھی تک جو بیک چینل رابطے ہوئے اُن سے بھی کچھ نہیں نکلا،  احتجاج کر کے بھی دیکھ لیا، بار بار اسلام آباد کی طرف مارچ سے بھی کچھ حاصل نہ ہوا بلکہ پارٹی ، اس کے رہنماؤں اور ورکرز کیلئے مشکلات بڑھتی ہی چلی گئیں۔ 

نہ لوگ باہر نکل رہے ہیں، نہ کوئی بائیکاٹ کامیاب ہو رہا ہے،  بیرون ملک پاکستانیوں نے بھی عمران خان کی اپیل پر ،کہ پاکستان کو ترسیلات زر کم سے کم بھیجیں ،کان نہیں دھرے بلکہ الٹا ترسیلات زریکارڈ لیول تک پہنچ گئیں،  ٹرمپ بھی مدد کو نہ آیا، آئی ایم ایف نے کوئی لفٹ نہ کرائی۔

 عدلیہ سے توقعات تھیں لیکن اب اُدھر سے بھی کچھ ملنے کا کوئی چانس نہیں،  کچھ بھی توقع کے مطابق نہیں ہو رہا نہ ہی عمران خان کی رہائی کا کوئی رستہ نکل رہا ہے،  اوپر سے پارٹی ہے کہ تقسیم در تقسیم ہو رہی ہے، رہنما ایک دوسرے کے آمنے سامنے ہیں۔

 اب کریں تو کیا کریں؟ یہ وہ سوال ہے جس کا جواب تلاش کیے بغیر تحریک انصاف کے مستقبل کے حوالے سے کچھ نہیں کہا جا سکتا،  موجودہ گومگو کی صورتحال سے تو پارٹی کو کچھ نہیں ملنے والا،  جب تک فیصلہ صاف صاف نہیں کیا جاتا کہ حکمت عملی کون سی اپنانی ہے، اُس وقت تک اپنی مقبولیت کے باوجود تحریک انصاف ملکی سیاست میں اپنا اثر کھوتی رہے گی۔

 اب نہ حکومت کو اس سے کوئی خطرہ ہے نہ ہی اسٹیبلشمنٹ کو اس سے کوئی خوف،  اب فیصلہ کیا کریں؟ لڑائی لڑنی ہے یا لڑائی کو ختم کر کے آگے کیلئے اپنا رستہ ہموار کرنا ہے،  اگر ان آپشنز کو مزید واضح کیا جائے تو پھر دو آپشن جن کے حوالے سے تحریک انصاف کو فیصلہ کرنا پڑے گا وہ ہیں، انقلاب یا مصالحت، یہ وہ فیصلہ ہے جو عمران خان کو کرنا ہے۔

 باقی پارٹی قیادت تو اس لحاظ سے کوئی حیثیت نہیں رکھتی، ایسا تو ہو نہیں ہو سکتا کہ لڑائی بھی لڑتے رہیں اور اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ راضی نامہ کی بھی کوشش کریں، یہ بھی نہیں ہو سکتا کہ اپنے جذباتی سوشل میڈیا کو خوش رکھتے ہوئے  اُن کے ٹرینڈز کے مطابق چلتے رہیں اورپھر یہ سوچیں کہ اس سے اسٹیبلشمنٹ ناراض بھی نہ ہو۔ 

فوج کے خلاف بات بھی کریں اور فوج کے ساتھ بات کرنے کے جتن بھی کریں،  لڑائی ہی لڑنی ہے تو پھر لڑائی لڑیں اور اس کیلئے انقلاب واحد رستہ ہے، کیا انقلاب کی پہلے کوشش کامیاب ہوئی؟ 9 مئی کو کیا ہوا؟ کیا حقیقی آزادی مل گئی؟ کیا بار بار کے احتجاج کی کالز دینے کے باوجود جو توقعات تھیں اُنکے مطابق دس فیصد بھی لوگ باہر نکلے؟۔

 ایسا اب تک تو نہیں ہوا لیکن کیا آئندہ ہو پائے گا؟ اس کا فیصلہ کرنا کوئی اتنا مشکل نہیں، اب دوسرا آپشن ہے مصالحت.... جس کیلئےپہلے فوج اور فوجی قیادت کے متعلق مکمل خاموشی اختیار کرنا پڑے گی، اس خاموشی کا مطلب عمران خان اور تحریک انصاف کے سوشل میڈیا کی خاموشی ہے۔ 

اگر ایسا ہو گیا توبھی فوری کچھ نہیں ملنے والا اور اس بات کا تحریک انصاف کے بہت سے رہنماؤں کو بھی علم ہے اور اسکے متعلق وہ آپس میں بات بھی کرتے ہیں،  پارٹی میں یہ احساس پایا جاتا ہے کہ گزشتہ دو تین سال کی پالیسیوں کی وجہ سے تحریک انصاف مقبول تو ضرور ہوئی لیکن اقتدار سے بہت دور ہو گئی۔

 یہ بھی احساس ہے کہ اقتدار سے یہ دوری کوئی جلدی ختم ہونے والی نہیں لیکن اگر آئندہ دو تین سال بعد اپنے لیے حالات کو سیدھا کرنا ہے تو پھر مصالحت لازم ہے،  جتنی جلدی مصالحت یعنی فوج سے لڑائی کے خاتمےکیلئے تحریک انصاف اور عمران خان قدم اُٹھائیں گے اُتنی جلدی پارٹی کی سیاست سے کنفیوژن کا خاتمہ ہو گا اور اُن کے سامنے اپنا مستقبل واضح ہوتا جائے گا۔ 

پارٹی کے اندر رہنماؤں کو اس بات کا احساس ہو چکا ہے کہ نہ تو الیکشن کے نتائج بدلیں گے نہ ہی حکومت جانے والی ہے، یعنی یہ نظام ایسے ہی چلے گا، سوچ یہ ہے کہ اگر آئندہ انتخابات کیلئے رستہ ہموار کرنا ہے اور اس بات کو یقینی بنانا ہے کہ اُس وقت پارٹی کا2024 کے انتخابات والا حال نہ ہو تو پھر مصالحت کا رستہ اختیار کریں اور نہ اپنے کسی رہنما اور نہ ہی سوشل میڈیا کوکھلی چھٹی دیں کہ اُن کے مرضی میں جو آئے وہ کرتے پھریں۔ فیصلہ عمران خان کو کرنا ہے!!