سیالکوٹ کے صوبائی حلقہ پی پی 52 کے ضمنی انتخاب میں پاکستان مسلم لیگ (ن) نے میدان مار لیا۔ غیر حتمی اور غیر سرکاری نتائج کے مطابق ن لیگ کی امیدوار حنا ارشد نے 78 ہزار سے زائد ووٹ حاصل کرکے واضح برتری سے کامیابی حاصل کرلی ہے۔ ان کے مدمقابل پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے حمایت یافتہ امیدوار فاخر نشاط صرف 40 ہزار 37 ووٹ حاصل کر سکے۔
ن لیگی امیدوار کی اس بھاری اکثریت سے جیت پر لیگی کارکنوں نے مختلف علاقوں میں جشن منایا، ڈھول کی تھاپ پر بھنگڑے ڈالے گئے اور مٹھائیاں تقسیم کی گئیں۔ وزیراعظم شہباز شریف اور وزیراعلیٰ پنجاب مریم نواز نے حنا ارشد کو کامیابی پر دلی مبارکباد دی اور اسے عوام کا ن لیگ کی قیادت پر اعتماد قرار دیا۔
وزیراعظم نے کہا کہ یہ فتح عوام کی ترقی، خدمت اور خوشحالی کے ایجنڈے کی جیت ہے جبکہ مریم نواز نے حنا ارشد کو ایک باہمت اور عوام دوست قیادت قرار دیتے ہوئے امید ظاہر کی کہ وہ حلقے کے عوام کی بہتر نمائندگی کریں گی۔
حلقہ پی پی 52 سمبڑیال کے ضمنی انتخاب کے لیے پولنگ کا عمل صبح 8 بجے سے شام 5 بجے تک بلا تعطل جاری رہا اور اس دوران کوئی ناخوشگوار واقعہ پیش نہیں آیا تاہم 10 منٹ کے لیے الیکشن کمشنر کی جانب سے ووٹنگ روکی گئی۔
پی پی 52 ضمنی الیکشن: پی ٹی آئی کا احتجاج، آر او آفس کنٹینر لگا کر سیل
پی پی 52 سیالکوٹ میں ہونے والے ضمنی انتخاب کے دوران پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کی جانب سے مبینہ دھاندلی کے خلاف شدید احتجاج کیا گیا۔
پی ٹی آئی کارکنوں نے آر او آفس کے باہر احتجاج کیا، جہاں الیکشن عملے کی جانب سے فارم 45 میں مبینہ رد و بدل کے الزامات لگائے گئے۔
انتظامیہ نے آر او آفس کو کنٹینرز لگا کر سیل کر دیا، جس پر پی ٹی آئی کارکن مشتعل ہو گئے۔ احتجاج کے دوران پولیس اور کارکنوں کے درمیان شدید دھکم پیل دیکھنے میں آئی۔
پولیس نے مظاہرین کو پیچھے دھکیلنے کی کوشش کی، جس پر کارکنوں نے مزاحمت کی۔
پولیس نے مظاہرہ منتشر کرنے کے لیے کارروائی کرتے ہوئے ایک کارکن کو حراست میں لے لیا جبکہ علاقے میں کشیدگی برقرار ہے جبکہ سکیورٹی مزید سخت کر دی گئی۔
پولنگ اسٹیشنز پر ووٹرز کی تعداد کم
اتوار کی چھٹی کے باوجود شدید گرمی کے باعث ووٹرز نے حق رائے دہی کے لیے گھروں سے نکلنے سے گریز کیا اور اور پولنگ اسٹیشنز پر ووٹرز کی تعداد کم رہی۔
پولنگ کے دوران خفیہ ووٹ کی خلاف ورزی سامنے آئی جب ایک ووٹر نے بیلٹ پیپر پر مہر لگانے کے بعد تصویر سوشل میڈیا پر وائرل کردی حالانکہ بیلٹ پیپر کی تصویر لینا غیر قانونی عمل ہے۔
پی ٹی آئی اور پیپلزپارٹی کے ن لیگ پر دھاندلی کے الزامات
پولنگ کے دوران پاکستان تحریک انصاف اور پیپلز پارٹی کی جانب سے مسلم لیگ (ن) پر الیکشن میں دھاندلی اور غنڈہ گردی کے الزامات عائد کرتے ہوئے کہا گیا کہ اُن کے پولنگ ایجنٹس اور ووٹرز کو تشدد کا نشانہ بنایا گیا جبکہ متعدد پولنگ اسٹیشنز سے باہر بھی نکال دیا گیا۔
راجہ پرویز اشرف نے کہا کہ ایسی شکایات بھی آئیں کہ ووٹرز کے پہنچتے ہی متعلقہ افسر نے پولنگ بند کر کے کمرے سے پولنگ ایجنٹس اور ووٹر کو باہر نکال دیا۔
پاکستان تحریک انصاف کے ترجمان شیخ وقاص اکرم نے بھی اسی طرح کے الزامات عائد کیے اور کہا کہ سیالکوٹ ضمنی انتخابات میں مینڈیٹ پر ڈاکہ مارا گیا تو عوام سڑکوں پرنکلیں گے، تحریک انصاف کے ورکروں اورکارکنوں پرتشدد کیا گیا، انہیں کوڈرایا دھمکایا گیا اس کے باوجود لوگ ہمارے ساتھ ہیں، مدت مکمل ہونے کے باوجود براجماں چیف الیکشن کمشنر کیا کررہے ہیں؟
مریم اونگزیب نے الزامات کی تردید کردی
مسلم لیگ (ن) کی رہنما اور سینئر صوبائی وزیر مریم اونگزیب نے الزامات کی تردید کرتے ہوئے کہا ہے کہ پی ٹی آئی نے وہی پرانا الزامات لگانے والا کھیل شروع کردیا جب کارکردگی نہیں ہوگی تو عوام ووٹ نہیں دیں گے۔
الیکشن کمیشن نے دھاندلی کے الزامات کو مسترد کردیے
علاوہ ازیں الیکشن کمیشن نے دھاندلی کے الزامات کو مسترد کرتے ہوئے ثبوت فراہم کرنے کا مطالبہ کیا اور یقین دہانی کرائی ہے کہ شواہد لانے پر صوبائی الیکشن کمشنر کی جانب سے کارروائی کی جائے گی۔
الیکشن کمیشن نے پیپلز پارٹی کے دھاندلی کے الزامات بے بنیاد اور انتظامیہ کی جانب سے مختلف پولنگ اسٹیشنز کو بند کرنے کی خبر کو سراسر جھوٹ قرار دیا۔
خیال رہے کہ یہ نشست مسلم لیگ (ن) کے ایم پی اے ارشد جاوید وڑائچ کی وفات کے بعد خالی ہوئی تھی۔
ضمنی انتخاب میں پاکستان مسلم لیگ (ن) کی امیدوار حنا ارشد، پاکستان پیپلز پارٹی کی جانب سے راحیل کامران چیمہ اور پی ٹی آئی کے حمایت یافتہ امیدوار فخر نشاط کے درمیان مقابلہ ہے۔
ترجمان الیکشن کمیشن کا کہنا تھا کہ حلقہ پی پی 52 میں ووٹرز کی مجموعی تعداد 2 لاکھ 97 ہزار 185ہے، پولنگ کے عمل کو شفاف اور منظم بنانے کے لیے کل 1696 پولنگ اہلکاروں کی تعیناتی کی گئی تھی۔
الیکشن کمیشن کے مطابق حلقے میں کل 185 پولنگ سٹیشنز قائم کیے گئے جن میں سے 11 کو انتہائی حساس اور 38 کو حساس اور 136 کو نارمل قرار دیا گیا تھا جبکہ امن وامان کی صورتحال کو برقرار رکھنے کے لیے پولنگ اسٹیشنز پر 2 ہزار سے زائد پولیس اہلکار ڈیوٹی کے فرائض سرانجام دے رہے تھے۔