امریکہ میںفسادات

وائٹ ہاﺅس میں تعینات سیکرٹ سروس ایجنٹس اگر صدر امریکہ کو انکے ایگزیکٹو منشن کے نیچے بنے ہوے تہہ خانے میں لے جائیںتو اسکا یہی مطلب ہو تاہے کہ بر سر زمین انکی حفاظت نہیں کی جاسکتی جمعے کے دن جب سفید محل کے باہر ہجوم کی تعداد میں اضافہ ہونے لگا اور مشتعل مظاہرین نے پتھر اور بوتلیں برسانی شروع کیں تو جنگلے کے دوسری طرف دفتروں میں کام کرنےوالے لوگ سہم گئے اس دن ایک پولیس افسر کے ہاتھوں ایک سیاہ فام شخص کے قتل کے خلاف ہونیوالے مظاہروں کا چوتھا دن تھاوائٹ ہاﺅس میں کام کرنے والے اکثر ملازمین کو تشدد کی فضا کو دیکھتے ہوے کام پر نہ آنے کا کہہ دیا گیا تھا صدر امریکہ تہہ خانے میں بھی سخت بھپرے ہوے تھے اپنے مشاہیر کے منع کرنے کے باوجود انہوں نے اپنی عادت سے مجبور ہو کر ٹویٹ کرنا شروع کر دئے اس مرتبہ نشانے کی زد پر دارلخلافے کی میئر Muriel Bowser تھیں صدر امریکہ نے ٹویٹ کیا ” واقعی یہ بہت بڑا ہجوم ہے اسے پروفیشنل طریقے سے منظم کیا گیا ہے مگر ان میں سے کوئی ایک بھی جنگلے کے اس پار نہیں آسکا اگر آ جاتا تو اسکے استقبال کیلئے نہایت خطرناک کتے اور خوفناک اسلحہ موجود تھا اورسیکرٹ سروس کے سپاہی ایکشن کیلئے تیار تھے “ اسکے ساتھ ہی صدر ٹرمپ نے میئر کے بارے میں کہا کہ اسکی پولیس فورس شہر کا تحفظ کرنے میں ناکام ہو چکی ہے واشنگٹن ڈی سی کی میئر کب خاموش رہنے والی تھیں انہوں نے فوراّّ جواب دیا کہ ” انکا پولیس ڈیپارٹمنٹ شہر میں کسی بھی شخص کا دفاع کرنے کیلئے تیار ہے۔

 ان لوگوں میں صدر صاحب بھی شامل ہیںمگر وہ تو خود جنگلے کے پیچھے سہم کر کسی جگہ چھپے ہوئے ہیں میں اسوقت جارج فلائڈ کے سفاکانہ قتل کے خلاف احتجاج کرنے والے مظاہرین کے درمیان ہوں اور انہیں پر امن رہنے کی تلقین کر رہی ہوں یہ لوگ اس نسل پرستی کے خلاف اپنے غم و غصے کا اظہار کر رہے ہیںجو اس ملک کی تاریخ کا ایک اہم حصہ ہے یہاں کوئی خطرناک کتا یا خوفناک ہتھیار نہیں ہے صرف ایک سہما ہوا شخص ہے“۔اس مکالمے سے ظاہر ہوتا ہے کہ امریکہ اسوقت ایک بد ترین بحران سے گزر رہا ہے کووڈ انیس کی وجہ سے ہلاکتوں کی تعدادایک لاکھ سے زیادہ ہو چکی ہے بیالیس ملین لوگ بے روزگار ہو چکے ہیں حکومت نے تین کھرب ڈالر کے چیک لوگوں میں تقسیم کئے ہیںجو ناکافی ثابت ہوئے ہیں اب دوسرے پیکج کا مطالبہ کیا جا رہا ہے جسے صدر امریکہ کی ری پبلکن پارٹی نے مسترد کر دیا ہے میڈیا کے مطابق 75 شہروں میں مظاہرین چھ روز سے مسلسل توڑ پھوڑ اور لوٹ مار کر رہے ہیں ایسے میں کسی ایسے مسیحا کی ضرورت ہے جوزخموں پر مرہم رکھ سکے مگر صدر ٹرمپ سیاسی مخالفین سے پنجہ آزمائی کو ہر مسئلے کا حل سمجھتے ہیں انکے وفادار ووٹر کسی بھی صورت انہیں مائل بہ کرم ہوتے ہوئے نہیں دیکھنا چاہتے وہ ہر حالت میں انہیں ایک مرد آہن کے روپ میںبر سر پیکار دیکھنا چاہتے ہیں وہ اگر چہ ووٹروںکی کل تعداد کا پینتیس فیصد ہیں مگر وہ یہ پیغام دینا چاہتے ہیں کہ یہ ملک انکے آباﺅ اجداد نے بنایا ہے ‘ یہ انکا ہے اور یہ باہر سے آئے ہوئے لوگوں کا نہیں ہو سکتایہ سفید فام اقلیت اپنے صدر سے خوش ہے کیونکہ وہ انکی مرضی کے مطابق ڈیلیور کر رہے ہیںگذشتہ پیر کے دن جارج فلائڈ کے بہیمانہ قتل کے بعدشروع میں ہونیوالے مظاہرے پر امن تھے۔

 مگر صدر ٹرمپ کی دھمکیوں نے سیاہ فاموں کو پورے ملک میں مشتعل کر دیا یہ مظاہرے اسوقت ایک خطرناک موڑ اختیار کر گئے جب صدر ٹرمپ نے نیشنل گارڈ کے علاوہ مسلح افواج کو بھی شہروں میں اتار دیااور ساتھ ہی یہ ٹویٹ بھی کر دی کہ جب لوٹنگ( لوٹ مار) شروع ہوتی ہے تو پھر شوٹنگ بھی شروع ہو جاتی ہے یہ ایک تاریخی جملہ ہے جو پہلے بھی سفید فام قوم پرست حکمران کئی مرتبہ استعمال کر چکے ہیںاسکے نتیجے میں پولیس اور مظاہرین کے تصادم میں مزید اضافہ ہوتا ہے کمی نہیں ہوتی مگر ہر نسل پرست حکمران کو یہ نقارہ بجانا پڑتا ہے تا کہ وہ اپنی طاقت اور برتری کا اعلان کر سکے اور یہ کہہ سکے کہ جو سلوک پہلے تمہارے ساتھ کیا گیا تھا اب بھی کیا جائیگا ۔امریکہ میں تشدد اور احتجاج کی روایت بہت پرانی ہے 1968 کا سول رائٹ ایکٹ مارٹر لوتھر کنگ کے قتل کے بعد پاس ہوا تھا اس المیے کے بعد پورے ملک میں ہنگامے شروع ہو گئے تھے اور یہ اسوقت تک جاری رہے تھے کہ جب تک شہری حقوق کا بل پاس نہیں کر لیا گیا تھا مارٹن لوتھر کنگ کی قیادت میں چلنے والی یہ تحریک شروع میں خاصی پر امن تھی مگر پولیس کے شدید رد عمل نے سیاہ فاموں کو توڑ پھوڑ پر آمادہ کیا مگر آج بظاہر خوشحال اور امیر ترین نظر آنیوالے اس ملک میں یہ ثابت ہو چکا ہے کہ بندئہ مزدور کے اوقات آسانی سے نہیں بد ل سکتے کہنے کو تو یہ فسادات جارج فلائڈ کا پولیس افسر ڈیرک چائن کے ہاتھوںقتل کا شاخسانہ ہیں مگر اسکے پیچھے سفید فام نسل پرستوں کا ڈھائی سو سال پہلے مسلط کیا ہوا تشدد اور ناانصافیوںپر مبنی ایک سفاکانہ نظام ہے دو سو برس تک انہوں نے سیاہ فاموں کو غلام بنائے رکھا اسکے بعد انہیں دودھ میں مینگڑیاں ڈال کر آزادی دی تو ان کےلئے جیلوں کے دروازے کھول دئے آج بھی امریکی جیلوں میں نصف سے زیادہ تعداد کالے امریکنوں کی ہے ۔

آج بھی سیاہ فام مائیں بچوں سے کہتی ہیں کہ ایک ڈالر کی چیز بھی خریدو تو رسید سنبھال کر رکھو‘ پولیس والا گاڑی روکے تو دونوں ہاتھ کھڑکی سے باہر کر دو تا کہ اسے تمہاری طرف سے حملے کا خطرہ نہ ہو ان سیاہ فام نوجوانوں کو اپنے علاقے کے پو لیس افسر کا گھٹنا اپنے گلے پر محسوس ہو رہا ہے انہیں جارج فلائڈ کی آواز کانوں میں گونجتی ہوئی سنائی دے رہی ہے ” میں سانس نہیں لے سکتا‘ میں سانس نہیں لے سکتا“ ڈیرک چائن نے نو منٹ تک اپنا بایاں گھٹنا اپنے شکار کے گلے پر رکھا تھا اسے معلوم نہ تھا کہ وہ چھ منٹ بعد دم توڑ چکا تھا اس غیر انسانی سلوک کی کئی وجوہات ہیں ایک یہ کہ گورے پولیس افسر ہمیشہ سے کالوں کو اسی بے رحمانہ سلوک کا مستحق سمجھتے ہیںدوسری وجہ یہ کہ سیاہ فام اب اقلیتوں کیساتھ ملکر اکثریت بننے والے ہیں تیسری وجہ یہ کہ کالے سینہ تان کے یہ کہتے ہیں کہ اس ملک کو سپر پاور ہم نے بنایا ہے اسکی شاہرائیں‘ پل‘ ٹرانسپورٹ کا نظا اور بلندو بالا عمارتیں ہم نے بنائی ہیںاب ہمیں اس ترقی میں اپنا حصہ چاہئے ہمیں انصاف چاہئے مگر انصاف انہیں اب بھی ملتا ہوا نظر نہیں آ رہا کیونکہ عدالتوں میں ایک بڑی اکثریت سفید فام ججوں کی ہے جواپنے ٹاﺅن کے لوگوں کے ووٹوں سے منتخب ہوتی ہے اور اسے بھی ہر حال میں صدر ٹرمپ کی طرح اپنے ووٹروں کو خوش رکھنا ہوتا ہے تا کہ تین سال بعد جب وہ دوبارہ جج بننے کیلئے ووٹ لینے جائیں تو انہیں مایوسی نہ ہوامریکہ میں یا کسی بھی ملک کے نظام انصاف میں اسوقت تک تبدیلی نہیں آسکتی کہ جب تک کہ پاور سٹرکچراسمیں تبدیلی لانے پر آمادہ نہ ہو ۔تین نومبر کو اگر ڈونلڈ ٹرمپ الیکشن ہار بھی جاتے ہیں اور انکی جگہ ڈیموکریٹک صدارتی امیدوار جو زف بائیڈن آ جاتے ہیں تو ان سے بھی کسی بڑی تبدیلی لانے کی توقع نہیں کی جاسکتی کیونکہ طاقتور لوگ وائرس کے ہاتھوںایک لاکھ لوگوں کی ہلاکت اور 75 شہروں میں پر تشدد مظاہروں کے بعد بھی کسی تبدیلی کی ضرورت محسوس نہیں کر رہے۔