چین کی چارمحاذوںپرپیش قدمی

موسم گرما کے شروع ہوتے ہی فوجی مشقوں کے دوران چین کی لداخ میں کئی مقامات پر اچانک پیش قدمی کی اصل وجہ بھارتی ماہرین کی رائے میں یہ ہے کہ امریکی قیادت عالمی معاملات میں ایک بھرپور کردار ادا نہیں کر رہی جسے دیکھتے ہوئے چین بیک وقت کئی محاذوں پر آگے بڑھ رہا ہے بھارت کے دفاعی صلاح کاروں کا کہنا ہے کہ کورونا وائرس کے تدارک میں کامیابی کے بعد چین کے حوصلے بلند ہو گئے ہیں وہ اپنے آپ کو ایک ایسی ابھرتی ہوئی طاقت کے روپ میں دیکھ رہا ہے جس کے عالمی کردار ادا کرنے کا وقت آگیا ہے ‘ایسا اگر نہ ہوتا تو بیجنگ ‘ ہانگ کانگ اور تائیوان میں بہ یک وقت امریکہ اور برطانیہ کی مرضی کے خلاف نئے جارحانہ اقدامات نہ کرتا‘ ہانگ کانگ میں حال ہی میں چین نے ایسے سکیورٹی قوانین نافذکرنے کا اعلان کیا ہے جن کی رو سے مظاہرین پر دہشت گردی کے الزامات لگا کر ان کے مقدمات کو چین کی عدالتوں میں منتقل کیا جا ئے گا اسی طرح بیجنگ میںبیس مئی کو ہونیوالی پیپلز نیشنل کانگرس کے اجلاس میں‘ جس میں تین ہزار مندوبین نے شرکت کی‘ صدر شی جنگ پی نے تائیوان کا ذکر کرتے وقت نہایت سخت الفاظ استعمال کئے‘ چینی قیادت پہلے تائیوان کے بارے میں ہمیشہ Peaceful Reconciliation کے الفاظ استعمال کرتی تھی لیکن اب وہ صرف Reconciliation پر اکتفا کرتی ہے جس کا مطلب تجزیہ کاروں کی رائے میں یہ ہے کہ وہ تائیوان پر بھی ہانگ کانگ کی طرح اپنی مرضی مسلط کرنے کی کوشش کرے گی۔

 اسی طرح جنوبی چین کے سمندر میں بھی بیجنگ نے نئے جزیرے آباد کر کے ان پر ان پر فوجی تنصیبات بنانا شروع کر دی ہیں ‘بھارتی میڈیا رپورٹس کے مطابق ان چاروں محاذوں میں لداخ اس لئے اہم ترین ہے کہ اس کا براہ راست تعلق کشمیر سے ہے اور اس مسئلے کی جڑیں کورونا وائرس کے پھیلاﺅ سے پہلے والے معاملات میں ہیں‘ظاہر ہے کہ اگست 2019 میں نریندر مودی کا لداخ اور جموں کشمیر کی ایک آزاد اور خود مختار علاقے کی حیثیت ختم کر کے اسے براہ راست نئی دہلی کے کنٹرول میں دے دینا ایک ایسی اشتعال انگیز حرکت تھی جو چینی قیادت کیلئے ناقابل برداشت تھی اس لئے کسی عالمی وباءکا ظہور اگر نہ بھی ہوتا تو بیجنگ نے بھارت کی اس دیدہ درہنی کا جواب ضرور دینا تھا اب بھارتی ماہرین یہ کہہ رہے کہ جموں کشمیر اور لداخ کے الحاق کا مقصد چین کو اشتعال دلانا نہ تھا بلکہ پاکستان کو یہ سمجھانا تھا کہ کشمیر کی آزادی کے تمام دروازے بند ہوگئے ہیں اور اب یہ ہمیشہ کیلئے بھارت سرکار کا حصہ بن گیا ہے ‘یہ توجیح عالمی برادری کی آنکھوں میں دھول جھونکنے والی بات ہے‘ ایک تو جموں کشمیر کے مسلمان اس الحاق کے حق میں نہیں اور دوسرا یہ بین الاقوامی قوانین کی سراسر خلاف ورزی ہے ‘بھارتی تجزیہ نگاروں کی رائے میں چین نئی دہلی کو اسلئے بھی سبق سکھانا چاہتا تھا کہ اس کا جھکاﺅ امریکہ کی طرف بڑھ رہا تھا اور اس نے حال ہی میں واشنگٹن کےساتھ اپنی تجارت کے حجم کو بڑھا دیا تھا جس کا نقصان بیجنگ کو اٹھانا پڑا تھا ‘اس کے علاوہ نئی دہلی کا مغربی میڈیا کے اس پروپیگنڈے میں شامل ہوناکہ چین کورونا وائرس کے پھےلاﺅ کا اصل ذمہ دار ہے بھی بیجنگ کے سخت رد عمل کی وجہ ہو سکتا ہے‘ اب چین کی اکسائی چن کے علاقے میں پیش قدمی نے بھارت کے آپشن بہت محدود کر دےئے ہیں اب تک تو دونوں ممالک اپنے سرحدی تنازعات سفارتی گفتگو کے ذریعے حل کرتے چلے آرہے تھے مگر اب چین میدان جنگ میں ایک بڑی عسکری کامیابی حاصل کرنے کے بعد اسے کسی بھی صورت مذاکرات کی میز پر کھونا نہ چاہے گا‘ اس کے بعد نئی دہلی کے پاس بیجنگ کیساتھ کےساتھ ایک بڑے فوجی تصادم کا آپشن رہ جاتا ہے جو بھارتی نیتاﺅں کےلئے زیادہ نقصان کا باعث بن سکتا ہے۔

 اس لئے نریندر مودی اب دانت پیسنے کے علاوہ اور کچھ نہیں کر سکتے انہیں ڈونلڈ ٹرمپ کی طرف سے لداخ کے معاملے میں جس حمایت اور حوصلہ دلانے کی ضرورت تھی وہ امریکی صدر نے یہ کہہ کر ختم کر دی کہ وہ چین اور بھارت کے مابین ایک ثالث کا کردار ادا کر سکتے ہیں‘ نریندر مودی پہلے ہی کشمیر کے معاملے میں پاکستان کےساتھ ثالثی والی امریکی پیشکش مسترد کر چکے ہیںعالمی ماہرین کی رائے میں موجودہ صورتحال میں بھارت کے پاس یہی آپشن بچا ہے کہ وہ لداخ میں ہر ا س جگہ اپنی افواج کی تعداد میں اضافہ کردے جہاں چین نے پیش قدمی کی ہے تا کہ بیجنگ مزید آگے بڑھنے کی بجائے اپنی حالیہ فتوحات پر اس وقت تک اکتفا کرے کہ جب تک گفتگو کے ذریعے اس پیچیدہ مسئلے کو حل کرنے کی کوشش نہیں کی جاتی‘لداخ میں چین کی پیش قدمی پر بھارت کا یہ واویلا کہ یہ محاذ بیجنگ کے کھولے ہوئے دوسرے محاذوںسے زیادہ خطرناک ہے اسلئے بے جا ہے کہ ہانگ کانگ میں چین کے نافذ کردہ نئے قوانین پر سخت رد عمل کا اظہار کرتے ہوئے برطانوی وزیراعظم بورس جانسن نے اعلان کیا ہے کہ اگر یہ قوانین منسوخ نہ کئے گئے تو وہ ہانگ کانگ کے انتیس لاکھ باشندوں کو برطانوی شہریت دینے کیلئے پارلیمنٹ سے قانون منظور کروا سکتے ہیں ہانگ کانگ 1997 سے سو سال پہلے تک برطانیہ کی کالونی رہ چکا ہے اس شہر کے باشندوں کو اب تک تمام شہری آزادیاں میسر تھیں اب وہ ایک سال سے چین کے نئے قوانین کےخلاف سڑکوں پر مظاہرے کر رہے ہیں۔

یہ جزیرہ اس قدر ترقی یافتہ ہے اور اس کے لوگ کاروبار اور نئی ٹیکنالوجی کے استعمال میں اتنے ماہر ہیں کہ اسے مشرق اور مغرب کے درمیان ترقی کا پل کہاجاتا ہے ‘امریکہ نے اب تک ہانگ کانگ کو تجارتی معاملات میں خصوصی سٹیٹس دیا ہوا تھا جس کی رو سے کم ٹیرف کے علاوہ ٹریڈ سرپلس اور دوسری کئی سہولتیں اسے حاصل تھیں مگر اب صدر ٹرمپ نے یہ تمام سہولتیں واپس لینے کا اعلان کیا ہے جس کی وجہ سے ہانگ کانگ کے علاوہ چین کی تجارت کو بھی مزید نقصان پہنچے گا اس اعتبار سے دو بڑی طاقتیں اس جگہ ایک بڑے تصادم کیلئے تیار ہیں جو ہر صورت میں کسی بھی دوسرے محاذ سے زیادہ پیچیدہ اور حساس معاملہ ہے اس کی مزید تفصیلات پر اگلی قسط میں بات ہو گی یہ معاملات اسلئے بھی اہم ہیں کہ ان کی تہہ میں چھپا ہوا سوال یہ ہے کہ امریکی اور چینی نظام ہائے حکومت میں سے کونسا بہتر ہے۔ (جاری ہے)