کوروناعدالتی نظام پراثرانداز

 شہزادانجم

خیبرپختونخواکی آبادی کی نسبت پشاورہائی کورٹ اورماتحت عدالتوں کے ججوں پرنظرڈالی جائے تویہ تعدادانتہائی کم ہے‘ اس کے باوجود کہ پشاور ہائی کورٹ کے چیف جسٹس وقاراحمدسیٹھ کی خصوصی ہدایات پر زیرالتواء مقدمات نمٹانے کے لئے بیش بہااقدامات کئے جارہے ہیں لیکن ایک جانب جج صاحبان کی تعداد کی کمی دوسری جانب وکلاء تنظیموں کی جانب سے آئے روز ہڑتالوں اورعدالتی بائیکاٹ کے باعث زیرالتواء مقدمات میں اضافہ ہی اضافہ ہورہا ہے جبکہ رہی سہی کسرکوروناوائرس کی وباء اورلاک ڈاؤن نے پوری کردی‘مارچ 2020ء سے قبل خیبرپختونخوامیں وکلاء تنظیموں کی جانب سے آئے روزہڑتالوں کاسلسلہ تھمنے کانام نہیں لے رہاتھااورجب وکلاء کے احتجاج کچھ کم ہوئے تواوپرسے کوروناوائرس نے پاکستان کو آلیااورملک کے دیگرشعبوں کی طرح عدلیہ بھی اس سے بچ نہ سکی اورججوں سمیت عدالتی عملے کے کورونا سے متاثرہونے کی بناء پرعدلیہ کوبھی لاک ڈاؤن کرناپڑا‘اس طرح مقدمات نمٹانے کی شرح میں مزیداضافہ ہوا‘تاہم اس کڑے وقت میں بھی چیف جسٹس پشاورہائی کورٹ وقاراحمدسیٹھ مقدمات نمٹانے میں ڈٹے رہے اوران کی سربراہی میں بنچ عدالتی لاک ڈاؤن کے دوران بھی مقدمات نمٹاتے رہے‘پشاورہائی کورٹ نے سال2019ء کو عدلیہ کی کارکردگی کاسال قرار دیاتھا اورصوبہ بھرکی ماتحت عدالتوں کو اس عرصے میں زیرالتواء مقدمات نمٹانے کاٹاسک سونپاگیا اورججوں کی کارکردگی سہ ماہی بنیادوں پرجانچی گئی‘ جس کے بہت اچھے نتائج سامنے آئے تاہم دسمبرسے شروع ہونے والے وکلاء کے عدالتی بائیکاٹ اورمارچ میں کوروناوباء کے آغازسے عدلیہ کی کارکردگی بھی متاثرہوئی اس حوالے سے پشاور ہائی کورٹ کے رجسٹرار خواجہ وجیہہ الدین نے چند روز قبل میڈیاکوبریفنگ دی گئی‘جس کے مطابق کورونا وباء کے سبب پشاور ہائیکورٹ سمیت ماتحت عدالتوں میں مقدمات داخل کرنے کی تعداد میں نمایاں کمی آئی ہے‘ جبکہ عدالتی کارکردگی بھی بری طرح متاثر ہوئی ہے‘ ہائیکورٹ میں اپریل اور مئی کے مہینوں میں صرف اڑھائی ہزارمقدمات ہی داخل ہوسکے‘ عدالت عالیہ نے چھ ماہ کے عرصہ کے دوران 13 ہزار 401 کیسز نمٹائے جبکہ زیرالتواء مقدمات کی تعداد40 ہزار 722 رہ گئی ہے پشاور ہائیکورٹ میں دسمبر 2019 سے مئی 2020تک عدالتوں کی کارکردگی سے متعلق رجسٹرار پشاور ہائیکورٹ خواجہ وجیہہ الدین نے بتایا کہ تقریباً ایک ماہ تک وکلاء بائیکاٹ اور پھرکورونا وباء کے باعث عدلیہ کو بھی کئی چیلنجز کا سامنا رہا اور اس سے جوڈیشری کے کام پر بھی اثر پڑا‘عدلیہ کے پہلے کامیاب کارکردگی سال کے بعد 2019-20کو کارکردگی کادوسرا سال قراردیاگیا تھا اورنئے مقدمات داخل ہونے کی نسبت زیادہ تر زیرالتواء کیسز نمٹائے گئے اس طرح کیسز نمٹانے کی شرح 98فیصد رہی ہے اس موقع پرممبرانسپکشن ٹیم پشاورہائیکورٹ محمد زبیرخان ودیگرافسران بھی موجود تھے رجسٹرار پشاور ہائیکورٹ کا کہنا تھا کہ ہائیکورٹ میں فرسٹ اور سیکنڈ کوارٹر میں 15ہزار 414 مقدمات داخل کئے گئے جبکہ 13 ہزار 401 کیسز نمٹائے گئے جہاں اس وقت زیر التوا کیسز کی تعداد 40 ہزار 722 ہے کورونا وباء اورماہ دسمبر اور جنوری میں وکلاء بائیکاٹ نہ ہوتا تو ہائیکورٹ میں زیر التوا کیسز 40 ہزار کی بجائے اب 35 ہزار تک ہوتے رجسٹرارخواجہ وجیہہ الدین کا کہنا تھا کہ ضلعی عدالتوں میں پہلے اوردوسرے کوارٹر میں ایک لاکھ 72 ہزار 708 کیسز فائل ہوئے‘ ڈسٹرکٹ جوڈیشری نے ایک لاکھ 67 ہزار 936 مقدمات نمٹائے جہاں اس وقت 2 لاکھ ایک ہزار697 کیسز زیرسماعت ہیں اوراگر کورونا وباء نہ ہوتی توان کیسز کی تعداد ایک لاکھ 82 ہزار 730 ہوتی۔

 ایک سوال کے جواب میں رجسٹرارخواجہ وجیہہ الدین نے کہا کہ عدلیہ میں شفافیت کو ترجیح دی گئی ہے اورتمام معلومات لوگوں تک پہنچائی جارہی ہیں‘ اسی طرح تمام تر توجہ کارکردگی بہتربنانے، نئی عدالتیں قائم کرنے اورمقدمات جلد نمٹانے پرمرکوز ہے تاکہ لوگوں کو فوری ریلیف مل سکے۔ ایک دوسرے سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ پشاور ہائی کورٹ میں  سپیشل سیل کورونا کے حوالے سے مانیٹرنگ کررہا ہے جو ڈسٹرکٹ جوڈیشری کے ساتھ بھی مسلسل رابطے میں ہے‘ انہوں نے کہا کہ کورونا سے ہائیکورٹ اور ماتحت عدالتوں کے متاثرہ اہلکار تیزی سے صحت یاب ہورہے ہیں اورکئی اہلکاروں کے ٹیسٹ بھی نیگیٹو آچکے ہیں۔ خیبرپختونخوا میں قائم تین چائلڈ پروٹیکشن کورٹس میں زیرسماعت مقدمات کی تعداد 777رہ گئی جبکہ ان چائلڈ کورٹس کو دیگر عدالتوں سے بھی 186مقدمات منتقل کئے گئے‘ اعدادوشمار کے مطابق دسمبر 2019ء اورمئی 2020کے عرصہ کے دوران یعنی دوسری اور تیسری سہ ماہی میں تین ڈویژنل ہیڈکوارٹرز پشاور، مردان اور ایبٹ آبادمیں کم سن بچوں کے تحفظ اور نو عمر ملزمان کے مقدمات نمٹانے کیلئے قائم عدالتوں میں 386 مقدمات فائل کئے گئے جبکہ 396 مقدمات کو نمٹایا گیا  اس طرح زیرسماعت مقدمات کی تعداد 777رہ گئی جبکہ دیگر عدالتوں سے بھی 186 مقدمات چائلڈ کورٹس کو منتقل کئے گئے‘ اس طرح ان عدالتوں کی جانب سے مقدمات نمٹانے کی شرح 103فیصد رہی ہے‘ پشاورہائیکورٹ کی جانب سے صوبے کے چار مزید ڈویژنل ہیڈکوارٹرز میں بھی چائلڈ پروٹیکشن کورٹس حال ہی میں قائم کی گئی ہیں۔ یہاں یہ امربھی قابل ذکرہے کہ کوروناوائرس وباء کے باعث پشاورہائی کورٹ اورماتحت عدالتوں میں کام کے متاثرہونے پر پشاورہائیکورٹ نے ضلعی عدالتوں کو مزیدمتحرک کرنے اور کارکردگی بہتربنانے کیلئے آن لائن اجلاس تسلسل کیساتھ ہر سہ ماہی کے بعد منعقدکرانے کا فیصلہ کیا ہے پشاورہائیکورٹ کے رجسٹرارخواجہ وجیہہ الدین کی صدارت میں ضلعی وسیشن ججز کیساتھ کوروناوباکی وجہ سے مسلسل آن لائن اجلاس 11جون سے 25جون تک منعقد کیے گئے رجسٹرارپشاورہائیکورٹ خواجہ وجیہہ الدین، ممبرانسپکشن ٹیم محمد زبیر اورڈسٹرکٹ جوڈیشری سیکرٹریٹ کے ڈائریکٹرز خالد خان، ضیاالرحمان اورضعیم احمدکی قیادت میں یہ اجلاس کافی سودمند اورموثرثابت ہوئے جو ضلعی عدالتوں کے معاملات کی نگرانی بھی کررہے ہیں اجلاس سے قبل اضلاع کیساتھ باقاعدہ ایجنڈہ شیئرکیا گیا جس میں کارکردگی کی جانچ پڑتال کے علاوہ انتظامی و مالی مینجمنٹ، ایچ آر، کوڈ آف کنڈکٹ،کورونا سے متعلق ایس اوپیز پرعملدرآمد اورمستقل کے گولز وغیرہ سے متعلق امورکو زیربحث لایا جاتا ہے اجلاس میں ضلعی عدالتوں کو مختلف امورسے متعلق ایکشن پلان مرتب کرنے ہدایت کی گئی جو پشاورہائیکورٹ کیساتھ بھی شیئرکیاجائے گا تاکہ اس حوالے سے مزید رہنمائی حاصل کی جاسکے آن لائن اجلاسوں میں ہر ضلعی عدالتوں کے جوڈیشل افسران نے عدالتوں میں پروگریس اوردرپیش چیلنجز اوران سے نمٹنے سے متعلق خیالات کا اظہار کیا آن لائن اجلاسوں کی کامیابی کے پیش نظر انہیں مارچ، جون، ستمبراوردسمبر کے مہینوں میں تسلسل کیساتھ منعقد کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔


خیبرپختونخوا میں انضمام کے تقریباً دوسال گزرنے کے باوجود ضم شدہ اضلاع میں مکمل عدالتی انفراسٹرکچرتیارنہ ہوسکا  اوران اضلاع میں انسداددہشت گردی ٗ انٹی کرپشن ٗ لیبرکورٹ ٗ ڈرگ کورٹ اوردیگرعدالتوں کاقیام عمل میں نہ لایاجاسکااس حوالے سے پشاورہائیکورٹ کی جانب سے تقریباً10ماہ قبل بھیجے گئے مراسلے پر بھی تاحال کوئی پیش رفت نہ ہوسکی جسکی وجہ سے ان اضلاع کے مقدمات نمٹانے میں کئی دشواریوں کا سامنا ہے ذرائع کے مطابق پشاورہائیکورٹ انتظامیہ نے 10ماہ قبل انسداد دہشتگردی اور دیگر عدالتوں کے قیام کیلئے صوبائی حکومت کوتقریباً 10ماہ قبل سفارشا ت بھیجی تھیں کہ ان اضلاع میں دوسرے صوبوں کی طرح باقاعدہ عدالتی نظام ہونا چاہیے جبکہ اس دوران بھی متعدد باریاددہانی کرائی گئی تاہم اس حوالے سے ہائیکورٹ کو اب تک کوئی جواب موصول نہ ہوسکا جسکی وجہ سے ان اضلاع کے مقدمات نمٹانے کے علاوہ دیگر مشکلات درپیش ہیں قبائلی اضلاع میں عدالتوں کے قیام کے حوالے سے سپریم کورٹ اور حکومتوں کو وقتاً فوقتاً آگاہ کیاجاتا رہا ہے اگرچہ صوبائی حکومت نے نئے مالی سال کے بجٹ میں قبائلی اضلاع میں عدالتوں کے قیام کیلئے تقریباً 10کروڑ روپے تجویز کیے ہیں تاہم اس پر بھی عملدرآمد ہونا باقی ہے ادھرمناسب وسائل وانفرسٹرکچر نہ ہونے کے باوجود پشاور ہائیکورٹ کی نگرانی میں ان اضلاع میں پچھلے چھ ماہ کے دوران 5264مقدمات کو نمٹایا گیا اس دوران 6017مقدمات داخل ہوئے جبکہ زیرالتواء کیسز کی تعداد 6237رہی ہے کورونا وائرس کے پھیلاؤ کے سبب ان اضلاع میں بھی اپریل اور مئی کے مہینوں میں لگ بھگ 1100مقدمات ہی داخل ہوسکے تھے۔