الکھ نگری

امریکہ روس کشمکش اس ہفتے کی اہم ترین خبر ہے سی آئی اے نے روس پر الزام لگایا ہے کہ اس نے افغانستان میںامریکی فوجیوں کو مروانے کیلئے طالبان کو زر کثیر فراہم کیاہے روس نے اسکی سختی سے تردید کرتے ہوے کہا ہے کہ وہ اگر چاہے تو ایسا کر سکتا ہے امریکہ نے بھی مجاہدین کو بے پناہ اسلحہ اور سرمایہ دیکر ہزاروں روسی فوجی ہلاک کروائے تھے ڈونلڈ ٹرمپ نے اس بات کو بڑھانے سے انکار کر دیا ہے وہ روسی صدر پیوٹن کیساتھ تعلقات خراب نہیں کرنا چاہتے واشنگٹن کے دفاعی ادارے روس کو سخت جواب دینا چاہتے ہیں لیکن صدر ٹرمپ کے آگے بے بس ہیں یہ معاملہ ختم نہیں ہوا سلگ رہا ہے لگتا ہے کہ امریکہ روس تعلقات میں کشیدگی مزید بڑھ جائیگی ادھر وطن عزیز میں مائنس ون ٹو تھری کی بحث گرم موضوعات میں سر فہرست ہے یہ وہ اصطلاح ہے جو دوسرے کسی ملک میں کم ہی سننے کو ملتی ہے مغربی ممالک میں صدر یا وزیر اعظم نے اگر جانا ہوتا ہے تو وہ اپنی پارٹی کیساتھ ہی جاتا ہے اسکی فراغت کابندوبست پارلیمنٹ کے اندر سے ہی کیا جاتا ہے باہر سے کسی تیسری قوت کی دخل اندازی کا کوئی تصور موجود نہیں مگر الکھ نگری میں ہمیشہ سے ایسا ہی ہوتا آیا ہے اور لگتا ہے کہ یہ سلسلہ جاری رہیگاممتاز مفتی نے اٹھارہ برس قبل ” الکھ نگری“ لکھی تھی یہ شکستہ خوابوں کی خون آلود دھول سے ابھرتے ہوئے ایک معاشرے کی داستان ہے آج وہ معاشرہ اپنی راہ کھوٹی کر کے کسی نا معلوم منزل کی تلاش میں سرگرداں ہے ” الکھ نگری“ 997 صفحات پر مشتمل ایک خود نوشت ہے مصنف نے پیش لفظ میں لکھا ہے کہ” یہ کتاب میری آپ بیتی ’ علی پور کا ایلی‘ کا دوسرا حصہ ہے علی پور کا ایلی میں میں نے یہ بات چھپائی تھی کہ میں ہی ایلی ہوںپھر بھید کھل گیا اور میں نے تسلیم کرلیا کہ میں ایلی ہوں علی پور کا ایلی میں میرا سب سے بڑا مشاہدہ عورت تھی الکھ نگری میں میرا سب سے بڑا مشاہدہ قدرت اللہ ہے“اس کتاب کے پہلے ڈھائی سو صفحات تقسیم اور فسادات کی ہولناکیوں کے بارے میں ہیں۔

یہی وہ حصہ ہے جو حیران اور ششدر کر دیتا ہے اسمیں تقسیم کے وقت ہونیوالے قتل مقاتلے اور انسانی خون کی ارزانی کے واقعات مصنف نے اتنی تفصیل‘ چابکدستی اور کمال مہارت سے بیان کئے ہیں کہ کتاب چھوڑنے کو جی نہیں کرتا آخری تجزیے میں یہ کتاب تصوف اور روحانیت کا درس دیتی ہے جا بجا پیر فقیر اور بابے کرداروں سے ملتے ہیں اور انکے حواس پر چھا جاتے ہیں اسے پڑھتے ہوے کئی ایسے واقعات اور جملے سامنے آتے ہیں جو دل و دماغ کو اپنی گرفت میں لے لیتے ہیں قاری انکی وزڈم اور حقانیت کے بارے میں سوچنے پر مجبور ہو جاتا ہے مجھے ان چشم کشا جملوں نے اتنا متاثر کیا کہ میں سوچنے لگا کیوں نہ انہیں قارئین تک پہنچا دیا جائے یہ کام اسلئے مشکل ہے کہ ہر اچھے مکالمے کا اپنا ایک سیاق و سباق ہوتا ہے اور اسے سمجھنے کیلئے پورے واقعے کی تفہیم ضروری ہوتی ہے ایک کالم میں صرف دو چار واقعات ہی بیان کئے جا سکتے ہیںاس ناول میں مصنف نے مختلف کرداروں کے ذریعے اپنا طرز احساس اور فلسفہ حیات بیان کیا ہے ان کرداروں میں سے ایک کا نام گانی ہے یہ خوبصورت اور منچلا نوجوان فسادات کے دوران بڑی مشکل سے بذریعہ ٹرین بمبئی سے لاہور پہنچتاہے اس نے راستے میں کئی سٹیشنوں پر مسلمانوں کے قتل عام کے مناظر دیکھے اس نے لاشوں کو ٹرین کے ڈبوں سے پلیٹ فارموں پر گرتے ہوے دیکھاوہ خود بھیس بدل لینے کی وجہ سے زندہ سلامت لاہور پہنچنے میں کامیاب ہو گیاوہاں اس نے ملازمت تلاش کی تو اسے مہاجرین کے کیمپ میں لٹے پٹے لوگوںکا غم بٹانے اور حوصلہ بڑھانے کی ذمہ داری سونپی گئی ۔

اس کیمپ میں اسکی ملاقات ایک الہڑ مٹیار چتری سے ہوئی دونوں ایک دوسرے پر فریفتہ ہو گئے پھر چند ماہ بعد چتری اچانک غائب ہو گئی گانی اسکا کھوج لگاتے لگاتے واہگہ کے بارڈر تک جا پہنچا وہاں اس نے چتری کو ڈھونڈھ نکالا رات کی تنہائی میں اس سے دل کی باتیں کرتے ہوے گانی نے پوچھا ” جو آنا ہی تھا تو ادھر جاتی بارڈر سے دور تو تو بالکل بارڈپر آگئی“ چتری نے جواب دیا ” یہاں ماسی کا گھر جو تھا“ گانی نے پوچھا ” تو اب یہیں رہے گی“ جواب ملا ” پتہ نہیں جب تک جی چاہے گا رہوں گی“ وہ بولا ” تیرے جی کا بھید بھی نہیں پایا“ چتری نے جواب دیا ” زنانی کے پلے اور ہوتا ہی کیا ہے بس ایک جی کا بھید ہی تو ہوتا ہے‘ جو وہ کھل جائے تو باقی کیا رہا“ اس طویل اور معنی خیز منظر کے اختتام کے بعد آگے چل کر ممتاز مفتی لکھتے ہیں” پھر حالات بہت ہی خراب ہو گئے مسلمانوں کی حالت بہت ہی نازک ہو گئی بمبئی کے گردو نواح میں مسلمانوں کے گاﺅں پر بھی حملے ہونے لگے مرد کو تہہ و تیغ کر دیا جاتا عورتوں سے بد سلوکی کی جاتی اخباروں میں یہ خبریں چھپنا بند ہو گئیں لیکن خبر بھی بلیک آﺅٹ ہو سکتی ہے کیا اخباروں کے صفحات سے اتر جائیں تو زبان خلق پر چڑ جاتی ہیںہزار سال کے بعد ہندﺅوں کے ہاتھ حکومت لگی تھی وہ مسلمانوں کے خون سے چراغاں کرکے خوشیاں منا رہے تھے“یہ کتاب ساٹھ ابواب پر مشتمل ہے ہر باب کے کئی حصے ہیںاور ہر حصے کا الگ سے ایک عنوان ہے گیارھویں باب میں ” مخولیا کاکا“ کے عنوان سے لکھتے ہیں ” باہر اندھیرا چھایا ہوا تھا گھٹا ٹوپ اندھیرا اس وقت مجھے موت کا ڈر نہیں تھا میں مرنا نہیں چاہتا لیکن موت سے ڈرتا بھی نہیںاسوقت بھی مجھے ڈر کا احساس نہ تھا لیکن زندگی پر میرا بھروسہ نہیں رہا تھا انسان پر کوئی امید نہ رہی تھی انسان کا لفظ ہی بے معنی ہو گیا تھا انسان دم توڑ چکا تھا پیچھے ہندو رہ گئے تھے مسلمان رہ گئے تھے“چودہویں باب کا عنوان ” لولی لاج “ ہے۔

 اسمیں ایک الگ حصے کا ٹائٹل ” ڈر کا مکڑا “ ہے اسمیں لکھتے ہیں ” جن کے دل میں خوف ہوتا ہے وہ کہہ دینے سے ڈرتے ہیںچھوٹی چھوٹی بے معنی باتوں کو چھپا چھپا کر رکھتے ہیںخوف ایک ایسا مکڑا ہے جو دل کے کونوں میں جالے تن دیتا ہے جن میں احساس گناہ کی مکھیاں لٹکتی رہتی سولہویں باب کے آخری حصے کا عنوان ہے ” جسم اور روح“ اسمیں مصنف نے اپنے ایک مصور دوست ذوبی کا ذکر کیا ہے موصوف خاصے عیاش طبع واقع ہوئے ہیں انکے سٹوڈیو میں لڑکیوں کا تانتا بندھا رہتا ہے ایک کمرہ الگ سے تنہائی کی باتوں کیلئے وقف ہے ممتاز مفتی ذوبی کے بارے میں لکھتے ہیں ” اسوقت وہ جسم کو جنت بنا کر بیٹھا ہوا ہے اگر کسی وقت روح جاگ پڑی تو اسے خود سے نفرت ہو جائیگی غلاظت کا احساس جاگے گا اور یہی جنت جہنم میں بدل جائیگی“ باب نمبر بیس میں ایک سگمنٹ کا عنوان ہے ” بنیاد کا ٹیڑھ“ اسمیں لکھا ہے ”1985 میں مجھے پہلی مرتبہ احساس ہواکہ شدت ایک عیب ہے بہت بڑا عیب جو راستے کی ایک عظیم رکاوٹ ہے اللہ کے راستے کی رکاوٹ نہیں انسانیت کے راستے کی رکاوٹ ہے“ اسی باب میں آگے چل کرلکھتے ہیں” 1950 میں جب میں اس تحقیقی سنٹر میںکام کررہا تھا تو میری عمر پینتالیس برس کی تھی غربت نے مجھ پر ایک پرانا لنڈے سے خریدا ہوا اوور کوٹ لٹکا رکھا تھا ساری زندگی جذبات کی دلدل میں لت پت رہنے کے بعدمیں کنارے پر لگا سوکھ رہا تھا“اس قسم کی دل و دماغ پر چھا جانے والی باتیںجا بجا اس تصنیف میں ملتی ہیں یہ کتاب کافی طویل ہے اسے پڑھتے ہوے گاہے یکسانیت اور اکتاہٹ کا احساس ہوتا ہے مگر جگہ جگہ چونکا دینے والے واقعات اور جملے اسے پڑھتے رہنے کی ترغیب دیتے ہیںدوسرا کوئی موضوع اگر آڑے نہ آیا تواگلے کسی کالم میں اس سلسلے کو بڑھانے کی کوشش کرونگا۔