آج جب میں ریکارڈنگ کےلئے آرہا تھا تو میرے ذہن میں کئی ایک موضوعات تھے اور کئی ایک ایسے سلسلے تھے ‘جو میں آپ سے ڈسکس کرنا چاہتا تھا یا یوں کہہ لیجئے کہ آپ سے شیئر کرنا چاہتا تھا بعض اوقات ایسا ہوتا ہے کہ آپ کچھ سوچ کر گھر سے نکلتے ہےں کہ آج اپنے دفتر میں اپنے افسر سے فلاں بہانہ کروں گا اور چھٹی کی عرضی پیش کروں گا آپ بھی اس طرح کرتے ہوں گے کہ ابو سے یہ بہانہ کرکے فلاں چیز مانگوں گا یا دوستوں کے ساتھ مری جانے کی اجازت لے لوں گا۔میں اپنی گاڑی میں ایک اشارے پر رکا ہوا تھا تو وہ کوئی گاڑیوں کی مرمت کی مارکیٹ تھی یا دکانیں تھےں وہاں ایک لڑکے کو دکان کے مالک یا اس کے استاد نے کان پکڑوا کر مرغا بنا رکھا تھا وہ بے چارا رو رہا تھا میرے خیال میں وہ کسی انتہائی غریب گھر کا بچہ ہوگا میلے کچیلے کپڑوں میں تھا اس کا استاد اس کے ساتھ بیٹھا ایک ہاتھ سے چائے کا کپ لئے چائے پی رہا تھا اور دوسرے ہاتھ میں وہ کوئی رینج یا پلاس جیسی چیز پکڑے ہوئے کسی چیز کے قابلے وغیرہ کس رہا تھا ہر کوئی اپنے اپنے کام میں مگن تھا اور وہاں یہ نہےں کہ کوئی دیکھنے والا نہےں تھا‘ یا کوئی اور نہےں تھا بلکہ لوگوں کا جم غفیر تھا۔
جس طرح عام طور پر مارکیٹوں میں ہوتا ہے میں نے سوچا کہ اس کی عمر بالکل ہماری اس عمر کی طرح سے تھی جب ہم اپنے دوسرے ساتھیوں کے ساتھ مل کر بستہ تختی ہاتھ میں لئے سکول جایا کرتے تھے اور میری ماں میرے بستے میں ایک روٹی کے اوپر رات کا بچاہوا میری پسند کا سالن اور مکھن کا پیڑا رکھ کر دیا کرتی تھی پیارے بچو! ٹینشن اس بات کی نہےں تھی کہ اس لڑکے کو اس کے مستری استاد نے مرغا کیوں بنایا ہے ظاہر ہے اس نے کوئی غلطی کی ہوگی یاکام سیکھنے میں کوئی کوتاہی کی ہوگی مجھے یا میرے ذہن میں مسئلہ یہ تھا کہ آخر کوئی اور بزرگ یا دوسری دکان کا استاد اس کے استاد کو یہ کیوں نہےں آکر کہتا کہ اسے آج چھوڑ دو اسے معاف کردو یہ آئندہ غلطی نہےں کریگا میرا دل کہتا ہے کہ اگر کوئی اسے معافی دلوادیتا تو وہ لڑکا دوبارہ وہ غلطی نہ کرتا جس پراسے سزا ملی تھی۔
(اشفاق احمد کے نشر پروگرام سے اقتباس)