معروف براڈ کاسٹر آغا ناصر اپنی یادداشتوں میں لکھتے ہےں کہ کس طرح کسی ادارے میں کسی سینئر کا نام اور یاد کس انداز میں رہتی ہے وہ لکھتے ہےں کہ ایک دن میں ٹی وی کے ایک پرانے ایم ڈی کے ساتھ لفٹ میں اوپر جانے کےلئے داخل ہوا میں چند قدم آگے تھا اسلئے پہلے لفٹ تک پہنچ گیا لفٹ آپریٹر نے کمال عجلت کےساتھ لفٹ کا دروازہ بند کردیا حالانکہ وہ دروازے تک پہنچ ہی چکے تھے میں نے لفٹ والے سے پوچھا ’تم نے دروازہ بند کردیا آپ کے پرانے صاحب بھی لفٹ میں آنا چاہتے تھے اس کی آنکھوں میں خاص چمک آئی ‘اپنی کامیابی پر بے حد خوش ہوکر کہا’سر میں نے اسی لئے تو لفٹ چلا دی تاکہ وہ اس میں نہ بیٹھ سکیں کم ازکم دومنٹ انتظار توکرنا ہوگا انہوں نے اپنے زمانے میں ہمیں بہت ستایا تھا ۔ مجھے احساس ہوا شاید یہی ایک مجبور اور بے بس ملازم کا انتقام ہے ایک دن یوں ہی بیٹھے بیٹھے مجھے خیال آیا کہ ذرا ریڈیو ٹی وی کے سربراہوں کا جائزہ لیکر یہ اندازہ کیا جائے کہ میرے ان سابقہ دو اداروں میں کون کون افسر تھے جن کے حصے میں ان کی سربراہی آئی لہٰذا میں نے نام یا دکرنے شروع کئے تو رفتہ رفتہ مجھے سارے نام ایک ایک کرکے یاد آگئے پھر میں نے یہ نام ایک کاغذ پر ترتیب وار درج کرلئے مجھے خیال بھی آیا کہ میں نے خواہ مخواہ یادداشت کے زور پر اپنے ذہن کو بوجھل کردیا یہ کام تو بڑی آسانی سے ریڈیو اور ٹی وی کے دفتروں میں جاکر کیا جاسکتا تھا جہاں پر محکمے کے پہلے سربراہ سے لے کر دور حاضر تک کے سارے نام کندہ ہوتے ہےں مجھے یہ بات اس لئے بھی یاد ہے کہ دونوں دفاتر میں آویزاں ان تختیوں پر دوبار میرا نام بھی رقم ہے۔
چونکہ میں دو دفعہ ریڈ یو کا ڈائریکٹر جنرل اور دوبارپی ٹی وی کا منیجنگ ڈائریکٹر رہا ناموں کی فہرست پر نظر ڈالتے ہوئے مجھے وہ پرانا دور یاد آیا جب یہ لوگ ان اعلیٰ عہدوں پر متمکن تھے ہر کسی کا اپنا انداز تھا ہر کسی کی اپنی شخصیت تھی کسی میں شان شکوہ افسری اور کسی میں فخر خلوص دلبری کوئی غرور وتمکنت کا پیکر‘ کوئی عجزو انکسار کا مظہر‘کوئی علم ودانش کا روشن چراغ ‘کوئی کند ذہن وصاف دماغ‘ کوئی ادب شاعری کا مرد میدان ‘کوئی افکار واخبار کا ترجمان کوئی عیش وآرام کادلدادہ کوئی ہمہ وقت شر انگیزی پر آمادہ ‘کوئی تنگ دل تنگ نظر کوئی روشن خیال وخوش بسرمیں کامل‘ کوئی بے رنگ بے لطف اور کاہل چند ایک بے باک ہمت دار اور حوصلہ مند چند بزدل‘ڈرپوک اور خوشامد پسند‘ یہ وہ زمانہ تھا جب سرکاری افسروں کو اور پیشہ ور ماہرین کو سیاست میں ملوث نہےں کیا جاتا تھا سیاست دان دفتری کام میں دخل نہےں دیتے تھے صرف سیاست کرتے تھے وزیر ‘مشیر اور سفیر بنتے تھے اور پالیسیاں ترتیب دیتے تھے ان پالیسیوں پر عمل کرانے کا کام افسروں اور حکومت کے مختلف شعبوں کے سینئر اراکین کا تھا وہ اپنے کام میں بالکل آزاد ہوتے تھے اور قاعدے اور قوانین کے مطابق حکومت کی وضع کی ہوئی پالیسی پرعمل کرتے تھے۔