وزیراعظم کے مشیران اور معاونین کے اثاثوں اور دہری شہریت کے بارے میں کیبنٹ ڈویژن کی ویب سائٹ پر جو معلومات فراہم کی گئی ہیںان پر میڈیا میں زورو شور سے بحث جاری ہے ان تفصیلات سے ظاہر ہوتا ہے کہ کابینہ کے انیس غیر منتخب ارکان میں سے چار دہری شہریت رکھتے ہیںاور چار کے پاس دیگر ممالک کے ریزیڈنسی پرمٹ ہیںان افراد کی وزیر اعظم کی کابینہ کے اجلاسوں میں شرکت کے خلاف جو کچھ لکھا جا رہا ہے اس میں سے بیشتر عقل و خرد کی کسوٹی پر پورا اترتا ہے مجھے ان دانشوروں کی ہمنوائی میں کوئی قباحت نظر نہیں آتی انکا کہنا بجا ہے کہ یہ فارن نیشنل افراد یا تو کابینہ سے استعفیٰ دے دیں یا دوسرے ملک کی شہریت یا گرین کارڈ سے دستبردار ہو جائیںکسی بھی دوسرے ملک کی شہریت حاصل کرنے کیلئے اسکے آئین سے وفا داری کا حلف اٹھانا پڑتا ہے اس حلف کے بعدکسی بھی شخص کی وفا داری منقسم ہو جاتی ہے اس صورت میں اسے زیب نہیں دیتا کہ وہ اپنے آبائی ملک کے فیصلہ ساز اداروںکا رکن بن کر قومی نوعیت کے اہم فیصلوں میں حصہ لے ایسے لوگوں کے بارے میں ظفر اقبال نے کہا ہے
دورو نزدیک اپنے ستارے بھی ہوئے
ہم کسی اور کے تھے اور تمہارے بھی ہوئے
میں نے خود امریکی آئین سے وفا داری کا حلف اٹھانے کے بعدامریکہ کی شہریت حاصل کی ہے مجھے امریکہ اور پاکستان دونوں ممالک میں اپنی حدود و قیود کا پتہ ہے ‘پاکستان میں میرے بہن بھائی‘ عزیز و اقارب اور دوست احباب کے علاوہ میرے آباﺅ اجداد کی قبریں ہیں میں پاکستان جاﺅں نہ جاﺅں یہ میرے خوابوں میں بستا ہے میری کوشش رہتی ہے کہ پشاور میں تمام دوستوں اور رشتہ داروں سے رابطہ رہے میری اہلیہ ہر دوسرے تیسرے روز پشاور فون کر کے اپنی بہنوں سے گھنٹہ بھر گپ شپ لگاتی ہے ہر سال سردیوں میں ایک مہینے کیلئے پشاور جانا کئی سالوں سے اسکا معمول ہے بنگ ہیمٹن میں میرے گھر سے پشاور تک پورے تیس گھنٹوں کا سفر ہے یہ کشٹ کاٹنے کیلئے ایک جذبے اور عشق کی ضرورت ہوتی ہے میں جب کبھی پشاور میں پندرہ بیس دن گذار کر واپس لوٹتا ہوں تودفتر میںجمع ہو جانے والے کام کا انبار میرا منتظر ہوتا ہے یہ باتیں لکھنے کا مقصد یہ ہے کہ امریکہ میں رہنے والے پاکستانی میری طرح بمشکل تمام سال دو سال بعد کچھ وقت نکال کر اپنے آبائی وطن کا سفر اختیار کرتے ہیںپاکستان کی سیاست میں شمولیت صرف وہ نو دولتیے کرتے ہیں جنہوں نے بہت کچھ کما لیا ہوتا ہے وہ اپنی دولت کے بل بوتے پر شہریت بھی حاصل کرنا چاہتے ہیںانکے کروفر کو دیکھتے ہوئے پاکستان کے سیاستدان انہیں اپنی جماعتوں میں اعلیٰ عہدوں پر تعینات کر دیتے ہیں اسمیں ٹریڈ آف یہ ہوتا ہے کہ جب کبھی کوئی سیاستدان یا بڑا افسر امریکہ یا برطانیہ آتا ہے تو اسکے اہل خانہ کے قیام و طعام کے علاوہ سیرو تفریح کا بھی معقول بندوبست کر دیا جاتا ہے‘ میں کئی ایسے پاکستانی امریکنوں کو جانتا ہوں جو اپنی دولت کے زور پر تینوں بڑی سیاسی جماعتوں کے سینیٹر بنے بیٹھے ہیں‘یہ قانون شکنی اور آئین سے انحراف جتنا کھلم کھلا پاکستان میں ہوتا ہے شاید ہی کسی دوسرے ملک میں ہوتا ہواس صورتحال
کے بارے میں علامہ اقبال نے کہا ہے
ہے عیاں یورش تاتار کے افسانے سے
پاسباں مل گئے کعبے کو صنم خانے سے
بھارت میں کسی بھی شہری کو دوسرے ملک کی شہریت ملتے ہی اسکی بھارتی شہریت ختم ہو جاتی ہے یوں اسے دہری وفاداری کے جھنجٹ سے نجات مل جاتی ہے ‘وطن عزیز میں سپریم کورٹ کا واضح حکم نامہ موجود ہے کہ دہری شہریت رکھنے والا قومی اور صوبائی اسمبلی کا ممبر نہیں بن سکتااسکے بعد فارن نیشنل کیلئے مشیر یا معاون بننے کا چور دروازہ باقی رہ جاتا ہے جسے ہمارے نئے پاکستان کے وزیر اعظم نے بڑی فراخدلی سے کھلا رکھا ہو اہے دہری شہریت رکھنے والے حضرات معاون اور مشیر بنکر کابینہ کے اجلاسوں میں خان صاحب کے دائیں بائیں بیٹھے ہوتے ہیں ‘وزیر اعظم صاحب اگر اپنی جماعت کا منشور ہی پڑھ لیں تو اسمیں صاف طور پر لکھا ہے کہ وزیروں سفیروں اور اسمبلیوں کے ممبران کے تمام اثاثے پاکستان ہی میں ہونے چاہئیں اور انکے پاس صرف ایک پاسپورٹ ہونا چاہئے لگتا یہ ہے کہ خان صاحب کو نہ صرف عدالت عظمیٰ کے فیصلے اور پاکستان کے دستور کے آر ٹیکل 91 کی کوئی پرواہ ہے اور نہ ہی وہ اپنی جماعت کے منشور کو کوئی اہمیت دیتے ہیںمطلق العنانیت اسکے علاوہ اور کیا ہوتی ہے تین سال پہلے کنٹینر پر کھڑے ہو کر انہوں نے دہری شہریت والوں کے بارے میں جو کچھ کہا تھاآجکل میڈیا میں اسکے چرچے جوش و خروش سے ہو رہے ہیں۔
امریکہ میں رہنے والے پاکستانی ان سب باتوں سے بخوبی آگاہ ہیں وہ یہ بھی جانتے ہیں کہ پاکستان میں رائے عامہ صرف غیر ملکی مشیروں اور معاونین کے خلاف ہے عام آدمی کو تارکین وطن سے کوئی پرخاش نہیں یہ ہمارے لئے فخرو انبساط کی بات ہے کہ ہمارے عزیز و اقارب ہمیشہ کھلے دل سے ہمیں خوش آمدید کہتے ہیں اور ہم جب تک اپنے آبائی وطن میں رہیں قدرو منزلت کیساتھ رہتے ہیں ایک عام امریکن پاکستانی کو اس سے زیادہ کچھ نہیں چاہئے پاکستان دوسری وجوہات کے علاوہ اس خوشگوار تعلق کی بدولت بھی ہمیشہ آنکھوں میں بسا رہتا ہے مرزا غالب نے کہا ہے
گو میں رہا رہین ستم ہائے روزگار
لیکن ترے خیال سے غافل نہیں رہا
اسی سے ملتا جلتا میر تقی میر کا شعر ہے
گفتگو کسی سے ہو دھیان اسی کا رہتا ہے
ٹوٹ ٹوٹ جاتا ہے سلسلہ تکلم کا
دہری شہریت کی بحث میںآجکل کئی دانشور بڑے فخر سے کہہ رہے ہیں کہ انہیں عرصہ پہلے امریکہ اور برطانیہ میں قیام کی پیشکش ہوئی تھی مگر وطن کی محبت میں انہوں نے اسے قبول نہ کیا میرے خیال میںانکے اس فیصلے کی صرف یہی ایک وجہ نہ تھی اسکی دوسری وجہ یہ بھی ہے کہ اپنی سرزمین کو خیر باد کہنا ایک بہت بڑا ایڈونچر ہے اسکے لئے دھن جگرا چاہیئے جو ہر کسی کے پاس نہیں ہوتا جو نئی منزلوں کا سفر اختیارنہیں کر سکتے وہ اپنی پاکی داماں کی داستان سنانے کے علاوہ ملک چھوڑ جانے والوں کو طعن و تشنیع کا نشانہ بھی بناتے ہیں انکے لئے افتخار عارف نے کہہ رکھا ہے۔
پیمبروں سے زمینیں وفا نہیں کرتیں
ہم ایسے کون خدا تھے کہ اپنے گھر رہتے