میں یہاں کی عید میں پشاور کی عید کے رنگ تلاش کرنیکی بہت کوشش کرتا ہوں مگر وہ نظر نہیںآتے آبھی نہیں سکتے عید گاہ میں ہر طرف نئے لوگ شناسا چہرے کم ہی نظر آتے ہیں چند جاننے والوں سے رسمی سی دو چار باتیں ہو جاتی ہیں لوگ تپاک سے ملتے ہیں خوش نظر آنے کی کوشش کرتے ہیں مگر وہ بات کہاں جو اپنے دیس کی عید میں ہوتی ہے اب نیو یارک میں پشاور کی عید کا مزہ کیسے مل سکتا ہے نوشی گیلانی نے ایسے لمحات کیلئے کہا ہے
نیا موسم میری بینائی کو تسلیم نہیں
میری آنکھوں کو وہی خواب پرانا لا دے
پرانے خواب دیکھے تو جا سکتے ہیں مگر انہیں واپس نہیں بلایا جا سکتا ایک دانشور نے کہا ہے زندگی پلٹ کر دیکھنے تو دیتی ہے پلٹنے نہیں دیتی سپنے رہ جاتے ہیں یا آنکھ کی نمی اس سال عید قرباں آنکھ کی اسی نمی کی رفاقت میں گزری تینوں دن دوستوں کیساتھ فون پر گپ شپ ہوتی رہی سب یہی کہہ رہے تھے کہ گھروں میں بیٹھے ہیں باہر بازار اور شاپنگ مالز بند پڑے ہیں ہر سال عید کے موقعے پر گھروں میں جو چھوٹی موٹی تقریبات ہوتی تھیںوہ بھی نہیں ہوئیںمیرا بیٹا اور بھتیجا ہر عید پر بچوں سمیت آ تے تھے تو رونق دوبالا ہو جاتی تھی اس مرتبہ کورونا کی وجہ سے وہ بھی نہیں آئے گھر والوں سے دو تین گھنٹے گپ شپ رہی پھر وہی کنج عزلت تنہائی کے اس عالم میں اور وہ بھی عید کے دن یہ کیسے ہوسکتا ہے کہ بیتے ہوے دن یاد نہ آئیں۔
تسکین کی تانیں اڑتی ہیںجھرنوں کے حسیں فواروں سے
بیتے ہوئے دن کچھ ایسے ہیں تنہائی جنہیں دہراتی ہے ۔
پشاور میں دادا جان محترم کے وقت میں ہمارے گھر میں عید کے دوسرے دن قربانی ہوا کرتی تھی پہلے دن عزیز رشتے دار گوشت بھجوا دیتے تھے جو بالٹی گوشت اور سیخی تکوں کی صورت میں رات دیرتک استعمال ہوتا تھا دوسرا دن تو جشن کا دن ہوتا تھامحلے کا مشہور قصاب لالہ رفیق جان اپنے دونوں بیٹوں سمیت صبح سات آٹھ بجے ہمارے صحن میں آ جاتا تھا اس صحن کے اوپر چھت میں لکڑی کا ایک فریم ہوتا تھا جسمیں لوہے کی سلاخیں لگی ہوتی تھیں اسے ہم منگ کہتے تھے خواتین اس منگ میں سے بیل کے باندھے جانے‘ گرنے اور ذبح ہونیکا منظر دیکھتی تھیںبچے بالے نیچے صحن میں بیل کو قریب سے دیکھنے کی کوشش کرتے تھے لانبے قد اور بھاری بھرکم جثے والا لالہ رفیق جان بڑی تیزی اور مہارت سے اپنا کام کرتا تھا بیل کو قابو کرنے کے ابتدائی مراحل کیونکہ مشکل ہوتے تھے اسلئے رفیق جان اس دوران خاموش رہتا تھا پھر جب چمڑا ادھیڑنے اور گوشت کاٹنے کا وقت آتا تو اسکے بیٹے اس کام میں جت جاتے اس دوران رفیق جان ملائی والی چائے اور روغنیوں سے محظوظ ہونے کیساتھ ساتھ گپ شپ بھی لگاتا تھا میرے لئے یہ عید قرباں کا یادگار ترین وقت ہوتا تھا اسمیں لالہ رفیق گلی محلے میں پہلے دن کی تمام قربانیوں کی روداد دادا جان کو سناتا دونوں ہم عمر اور پرانے شناسا تھے اسلئے انکی باتوں کا اپنا ایک مزہ ہوتا تھا رفیق جان نپے تلے لفظوں میں ہر گھر کی قربانی کے بارے میں اپنی رائے دیتا اور یہ بھی بتاتا کہ کس نے جانور اچھاخریدا تھا اور کس کے بیل یا دنبے بکرے کمزور تھے کس نے زیادہ پیسے خرچ کئے تھے اور کس نے کم دام دیکر اچھا مال خریدا تھا۔
جواباّّ میرے والد صاحب بھی بتاتے کہ انہوں نے بیل کس بازار سے کتنے میں خریدا اور کتنے دنوں تک اس کےلئے آنا جانا لگا رہا یہ 1960 کی دہائی کی بات ہے ہم سب بھائی والد صاحب کے ہمراہ مال خریدنے جاتے تھے ہماری خواہش ہوتی تھی کہ جلد سے جلد جانور خرید لیا جائے تاکہ ہمیں اسے سنوارنے اور سجا نے کیلئے زیادہ دن مل جائیں مگر ایسا کبھی بھی نہ ہوابیل ہمیشہ دو تین دن چکر لگانے کے بعد ہی خریدا جاتا تھا والد صاحب کی کوشش ہوتی تھی کہ اچھا مال خریدا جائے تا کہ رفیق جان کہیں یہ نہ کہہ دے اس مرتبہ آپکا بیل لالے غلام محمد کے بیل سے کمزور تھا لالہ غلام محمد کا گھر ہمارے گھر کے بالکل سامنے تھا انکی فیملی کیساتھ ہمارے تعلقات اب بھی ویسے ہی ہیں کہ جیسے ساٹھ برس پہلے تھے وہی مروت اور بھائی چارہ ہم1987 میں محلہ شالیکوبان چھوڑ کر گلبہار نمبر تین منتقل ہو گئے تھے مگر اس گلی محلے میں ہمارا آنا جانا آج تک لگا رہتا ہے میں جب بھی پشاور جاﺅں لالہ غلام محمد کے بیٹے اقبال کے گھر ضرور جاتا ہوں ہم دونوں بچپن کے دوست ہیںمل بیٹھیں تودل کھول کر بیتے دن یاد کرتے ہیںاس زمانے میں ہر عید پر میرے تینوں دن اقبال کی بیٹھک میں گزرتے تھے وہاں رات گئے تک دوستوں کی محفل جمی رہتی تھی تاش اور کیرم بورڈ کی بازیاں ہوتی تھیںاقبال کی والدہ وضع دار خاتون تھیں محفل برخواست ہونے تک کھانے پینے کا سلسلہ جاری رہتا تھا یہی وہ عید تھی جو اب کہیں نظر نہیں آتی نیویارک میں ہر عید پر مجھے پشاور کی عید کیوں نہ یاد آئے وہی تو اصل عید تھی اب اس شام تنہائی میں یہی کہا جا سکتا ہے ۔
دل بھی تھا دھواں دھواں شام بھی تھی اُداس اُداس
دل کو کئی کہانیاں یاد سی آکے رہ گئیں
عید قرباں کے دوسرے دن کافی مصروفیت ہوتی تھی رفیق جان کے جانے کے بعد گوشت تقسیم کرنے کا مرحلہ درپیش ہوتا تھا خواتین گوشت کے پیکٹ بنا کر ہر ایک پر رشتے دار کے نام لکھ دیتی تھیںپھر ہم سائیکلیں اٹھا کر شہر کی مختلف سمتوں میں روانہ ہو جاتے تھے تاکید یہی ہوتی تھی کہ ہر گھر کے دروازے پر ہی پیکٹ دے دیا جائے تا کہ وقت ضائع نہ ہو مگر کہیں نہ کہیں گپ شپ کیلئے بیٹھنا پڑ جاتا تھا یہ سلسلہ رات نو دس بجے ختم ہوتا تھا ان دنوں کی ایک کہانی یہ بھی ہے کہ وہ پشاور کی مڈل کلاس کے عروج کا زمانہ تھا افغانستان کے ساتھ دوستانہ تعلقات تھے وہاں سے ہر روز سینکڑوں کی تعداد میں بیوپاری پشاور آتے اور بجاز لڑے‘ موچی لڑے اور چوک یادگار سے ہزاروں بلکہ لاکھوں روپوں کا سامان لیکر جاتے عید کے دنوں میں یہ گہما گہمی کچھ زیادہ ہوتی تھی اقبال کی دکان موچی لڑے میں تھی اس بازار پر عید کے دنوں میں ہن برستا تھا افغان تاجر یہاں سے پلاسٹک کی جوتیوں کے گھٹے ڈاٹسن اور ٹیوٹا پک اپ میں لاد کر کابل لے جاتے تھے پھر سوویت یونین کے حملے نے یہ سب کچھ ملیا میٹ کر دیا وہ دن اور آج کا دن ان تین بڑے بازاروں کی رونقیں لوٹ کر نہیں آئیںپرانی رونقیں شاید کبھی لوٹ کر نہیں آتیںسپنے رہ جاتے ہیں یا ّنکھ کی نمی اسی برکھا کے بارے میں سلیم کوثر نے کہا ہے۔
پھول بے رنگ ہوے آئینے بے آب ہوئے
کیسے منظر تھے ان آنکھوں میں جو نایاب ہوئے
قارئین کرام عید تو کب کی گزر چکی مگر اسے گزرے اتنے زیادہ دن بھی نہیں ہوئے اس لئے آپ سب کو میری طرف سے عید مبارک قبول ہو۔