قدرت اللہ شہاب بنگال کے مشہور قحط سے پیدا حالات اور رویوں سے متعلق لکھتے ہیں کہ بڑی بڑی کشادہ سڑکیں دودھئی قمقموں کی مہتابی روشنی میں نہائی ہوئی تھیں‘ بازاروں کی دکانیں آراستہ وپیراستہ سازوسامان سے چمک دھمک رہی تھیں‘ خوش پوش بنگالی مرد کاروں‘ ٹیکسیوں میں‘ بسوں میں‘ٹراموں میں‘ رکشاﺅں میں اور پیدل ہنسی خوشی ادھر ادھر آجارہے تھے‘ کچھ اپنے آپ میں مست تھے‘کچھ اپنے اپنے کاموں میں مست تھے‘ان سب کی نگاہوں سے اللہ کی وہ بے شمار مخلوق اوجھل تھی جو ان کے آگے پیچھے‘ دائیں بائیں سڑکوں پر‘ فٹ پاتھوں پر‘ گلیوں میں‘ کوچوں میں‘ میدانوں میں کیڑے مکوڑوں کی طرح سسک سسک کر رینگ رہی تھی‘ زندگی کی دو مختلف دھارے ایک دوسرے سے بالکل الگ تھلگ اس طرح رواں دواں تھے جیسے دومتوازی خطوط جو آپس میں کبھی نہیں ملتے۔ بنگال کا قحط بلائے ناگہانی کانتیجہ کم اور حکومت کی بدانتظامی کا نتیجہ زیادہ تھا‘ مشرق بعید میں ملک پر ملک فتح کرنے کے بعد اب جاپانی فوجیں آسام کی سرحد پر ہندوستان کا دروازہ کھٹکھٹارہی تھیں‘ کلکتہ اور مدراس پر جاپانی ہوائی حملے ہو چکے تھے‘ بنگال کے ساحلی علاقوں میں خفیہ آبدوز کشتیوں کے ذریعے جاپانی ففتھ کالم کے ایجنٹوں کے اترنے کی خبریں بھی متواتر پھیل رہی تھیں۔
1942ءکی Quit Indiaتحریک کے بعد برٹش گورنمنٹ بھی تذبذب میں تھی کہ اگر جاپان نے واقعی حملہ کیا تو خدا جانے مقامی آبادی کس کا ساتھ دے‘بنگال میں سبھاش چندربوس کے فارورڈ بلاک کا خاصا اثر تھا‘ اس لئے جاپانی حملے کی صورت میں اس صوبے کی وفاداری کے متعلق حکومت کے ذہن میں بہت بڑا سوالیہ نشان تھا‘ان تمام خطرات کے پیش نظر حکومت نے ایک طرح کی Scorched Earth Policyکو اپنی حکمت عملی کا حصہ بنالیا‘ اس پالیسی کے تحت صوبے میں چند بڑے بڑے پروکیورمنٹ ایجنٹ مقرر کردیئے گئے‘انہوں نے شہروں اور بڑے بڑے دیہاتوں میں جگہ جگہ اپنے گودام کھول لئے اور ایڈمنسٹریشن کی مدد سے دھان اور چاول کی ساری فصل سستے داموں خرید خرید کر گوداموں میں منتقل ہو گئی‘یہ ذخیرے زیادہ تر حکومت کی اپنی سول اور ملٹری ضروریات پوری کرنے کیلئے کام میں لائے جاتے تھے‘ان کے متعلق مستقل احکام یہ تھے کہ جاپانیوں کی پیش قدمی کی صورت میں ان سب کو جلا کر تباہ کردیا جائے تاکہ خوراک کا کوئی ذخیرہ دشمنوں کے ہاتھ میں نہ آنے پائے‘جو تھوڑا بہت چاول پروکیورمنٹ ایجنٹوں کی دسترس سے بچ رہا تھا اسے مقامی زمینداروںاور امیر لوگوں نے دھونس‘دھاندلی یا لالچ کے زور سے خرید کر اپنے اپنے ذاتی ذخیروں میں جمع کرلیا‘ رفتہ رفتہ اناج کی منڈیاں بند ہو گئیں‘ کاشت کاروں کے اثاثے ختم ہو گئے اور زمینداروں اور بنیوں کے چاول کی قیمت آسمان سے باتیں کرنے لگی۔