جمہوریت ایک طرز حیات ہے

عیدالاضحی سے پہلے حزب اختلاف نے کل جماعتی کانفرنس بلانے کا اعلان کیا تھا چند بڑی جماعتوں کے سربراہوں نے ملاقاتیں کر کے حکومت کو سبق سکھانے کے عزم کا اظہار بھی کیا تھا اسوقت اس اے پی سی کے بارے میں کافی جوش و خروش پایا جاتا تھا اب اسمیں کچھ کمی آگئی ہے لیکن بات چل نکلی ہے اسلئے کچھ نہ کچھ ہو کر رہیگا یوں بھی حزب مخالف کے پاس کانفرنس بلانے کے علاوہ دوسرا کوئی آپشن موجود نہیں قومی اسمبلی میں الزام تراشی پر مبنی دھواں دھار تقریروں کے علاوہ اور کچھ نہیں ہو سکتا وزیر اعظم مخالفین سے بات کرنے پر آمادہ نہیں اسلئے جمہوری نظام ڈس فنکشنل ہو کر رہ گیا ہے پارلیمانی یا صدارتی کسی بھی نظام میں وزیر اعظم یا صدر مخالفین کو ساتھ لئے بغیر قانون سازی نہیں کر سکتا امریکہ میں ڈونلڈ ٹرمپ جیسا بر خود غلط اور ہٹ دھرم صدر بھی قانون سازی کیلئے ڈیموکریٹک پارٹی کی مدد کا طلبگار رہتا ہے واشنگٹن میں اگر دونوں بڑی جماعتیں ملکر قانون نہ بناتیں تو اپریل میںایک کھرب ڈالر کا ریلیف پیکج عوام تک نہ پہنچتادونوں بڑی جماعتوں کی اس مفاہمت کی وجہ سے تین ماہ تک ہر بیروز گار شہری کو گھر بیٹھے 600 ڈالرکا چیک ہر ہفتے ملتا رہا اسکے علاوہ ہر ٹیکس دینے والے کو 1200 ڈالر کا چیک بھی دیا گیا اب وبائی مرض کے طول پکڑنے پر دونوں جماعتیں ملکر تین کھرب ڈالر کے ایک نئے پیکج پر گفت و شنید کر رہی ہیںصدر ٹرمپ نے کہہ دیا ہے کہ وہ اس بل کے سینٹ سے منظور ہوتے ہی اس پر دستخط کر دیں گے اس سارے عمل کو ڈیموکریسی ان ایکشن کہا جا سکتا ہے مگر یہ تمام عوامل ملکر بھی جمہوریت نہیں کہلا سکتے اسمیں اگر اس عوامی احتجاج کو بھی شامل کر لیا جائے جو گزشتہ پانچ ماہ سے جاری ہے۔

 تو تب بھی اسے مکمل جمہوریت نہیں کہا جا سکتا ۔جمہوریت کیا ہے اسے کیسے زندہ رکھا جا سکتا ہے اسکے فوائد کیسے حاصل کئے جا سکتے ہیںاور اسے ایک فعال نظام کی صورت میں کیسے اگلی نسل کو منتقل کیا جا سکتا ہے ان تمام سوالوں کے جوابات ممتاز سول رائٹس لیڈر John Lewis نے حال ہی میں شائع ہونیوالے ایک مضمون میں دیا ہے وہ ریاست جارجیا کے شہر اٹلانٹا کے کانگرس مین تھے اس سیاہ فام لیڈر نے اپنی زندگی شہری حقوق‘ نسل پرستی کے خاتمے اور مبنی بر انصاف جمہوری نظام کے حصول کیلئے وقف کی ہوئی تھی گذشتہ ہفتے انہیں انکے آبائی شہر میں سرکاری اعزاز کیساتھ سپرد خاک کیا گیا انکی آخری رسومات میں سابق صدر براک اوباما انکی اہلیہ مشعل اوباما اور ڈیموکریٹک پارٹی کی قیادت نے شرکت کی جان لیوس نے نیو یارک ٹائمز کو ایک مضمون بھیجا تھا اور گذارش کی تھی کہ اسے انکی وفات کے بعد شائع کیا جائے اسمیں انہوں نے لکھا ہے کہ ” جمہوریت ایک حالت نہیں ہے بلکہ ایک عمل ہے“ It is not a state, it is an act اور ہر نسل نے اس عمل کو جاری رکھنے کیلئے اپنا کردار ادا کرنا ہے جان لیوس نے کہا ہے کہ جمہوریت کی بقا کیلئے ضروری ہے کہ ہر فرد ایک Beloved Community ایک قوم اور ایک پر امن عالمی معاشرہ قائم کرنے کے عمل میں شامل ہو‘جمہوریت کے بارے میں عام تاثر یہ ہے کہ آئین‘ اسمبلیاں‘ انتخابات اور عدالتیں ملکر جمہوری نظام بناتی ہیںجان لیوس کی رائے میں جمہوریت ان سب سے زیادہ اثر انگیز عمل ہے یہ ایک اصول ہے ‘ ایک طرز زندگی ہے اور ایک ایسا نظام ہے جسے زندہ رکھنے کیلئے ہر شخص کو اسمیں شامل ہونا پڑتا ہے جان لیوس سے بہت پہلے معروف امریکی فلسفہ دانJohn Dewey نے 1888 میں The Ethics Of Democracy کے عنوان سے ایک مضمون میں لکھا تھا کہ جمہوریت صرف اکثریت کی حکومت کا نام نہیں ہے بلکہ یہ ایک ایسے اخلاقی اور روحانی تعلق کا نام ہے ۔

جو انسان کے کردار اور صلاحیتوں کو جلا بخشتا ہے جان ڈیوی کی رائے میں جمہوریت اس بات کو تسلیم کرتی ہے کہ ہر انسان میں بے پناہ صلاحیتیں موجود ہیںاور ان صلاحیتوں کو صرف ایک شخص یا کسی گروہ کی نشوونما کیلئے نہیں بلکہ پورے معاشرے کی ترقی کیلئے استعمال کیا جا سکتا ہے ڈیوی کا کہنا ہے کہ اگر عام آدمی کی اہمیت کو تسلیم کر لیا جائے تو پھر جمہوریت لا انتہا امکانات کا نظام بن جاتی ہے یہ نظام ہر فرد کو آزادی دینے کے علاوہ اس سے چند اہم ذمہ داریاں نبھانے کا تقاضا کرتا ہے اور یہ توقع کرتا ہے کہ ہر فرد جمہوری نظام کے بنیادی اصولوں کو زندہ رکھنے کیلئے فعال کردار ادا کریگا جان ڈیوی کی خواہش تھی کہ امریکہ دنیا بھر کیلئے ایک نمایاں اور چمکتی ہوئی جمہوریت کا پرول ماڈل بن جائے مگر وہ یہ جانتا تھا کہ اسکی یہ خواہش محض ایک خواب تھا اس نے لکھا ہے کہ حقیقت میں مثالی جمہوریت انسانی حقوق کے حصول کی منزل کی طرف ایک سفر ہے اس منزل تک اس صورت میں پہنچا جا سکتا ہے کہ انسانی فطرت کی طاقت کو تسلیم کر لیا جائے اور اس طاقت کی مخالف سمت میں چلنے کی کوشش نہ کی جائے ہر مثالی جمہوری نظام میں انسانی فطرت کی طاقت کو ایک منصفانہ اور پر امن سماج کی تشکیل کیلئے لازم و ملزوم سمجھا جا تا ہے ڈیوی نے لکھا ہے کہ ایک جمہوری معاشرے کے قیام کیلئے ضروری ہے کہ حکومت اور سوسائٹی ملکر ایسا ماحول تخلیق کریں جسمیں ہر فرد خود کو نظام کا حصہ سمجھے اور اسے یقین ہو کہ جمہوریت پورے سماج کو یکجا اور ہم آہنگ کر کے آگے بڑھانے کے عمل کا نام ہے ۔جان ڈیوی نے دوسری جنگ عظیم کے دوران دیکھا کہ فاشزم اور پاپولزم عروج پر تھا اس صورتحال کے بارے میں اسنے لکھا کہ ” جمہوریت ایک ایسا عقیدہ ہے جو اس وقت انسانی جذبات سے ہم آہنگ ہوتا ہے۔

 جب اسے ایک مربوط نظام کی صورت میں ہر روز بروئے کار لایا جائے اور اسے اس یقین کیساتھ نافذ کیا جائے کہ یہ فرد اور معاشرے کے تعلق کو فروغ دیگا اگر جمہوری نظام انسانی عظمت کو تسلیم نہیں کرتا اور مساوات پر مبنی معاشرے کو تخلیق نہیں کرتا تو پھر سارا نظام مخالف سمت میں چل پڑتا ہے“ دیکھا جائے تو امریکہ میں صدر ٹرمپ کی تمام تباہ کاریوں اور ناکامیوں کے باوجود لوگ جمہوری نظام پر غیر متزلزل یقین رکھتے ہیںاسی لئے ڈونلڈ ٹرمپ کو نہ صرف ہر محاذ پر شکست ہورہی ہے بلکہ وہ کھربوں ڈالر دیکر عوام کی ہمدردیاں حاصل کرنیکی کوشش کر رہا ہے ۔وطن عزیز میں حکومت کی اظہار رائے پر پابندی اور نیب کے اپوزیشن پر ڈھائے جانے والے مظالم ثابت کرتے ہیں کہ معاشرہ انسانی فطرت کے تقاضوں کی مخالف سمت میں سفر کر رہا ہے اور لوگ منصفانہ انتخابات کے نام پر آنیوالی سیلکٹڈ حکومت کیوجہ سے جمہوری نظام سے بد ظن ہوتے جا رہے ہیں اس تناظر میں حزب اختلاف کو چاہئے کہ وہ کل جماعتی کانفرنس کو محض تقریروںکے ایک فورم کی بجائے ایک حقیقی جمہوری معاشرے کی تخلیق کی جانب ایک ہمہ گیر پیش رفت کے طور پر استعمال کرے یہ اسی صورت میں ممکن ہے جب اس کانفرنس میں ملک کی سماجی اور معاشی ترقی کیلئے ایک مربوط لا ئحہ عمل پیش کیا جائے اور لوگوں کو اسپر عملدرآمد کیلئے آمادہ کیا جائے اسکے بغیر یہ کانفرنس نشستن گفتن اور برخواستن کے تکلف سے زیادہ کچھ بھی نہ ہوگی ۔