ریٹائرمنٹ اوربیماری

 معروف براڈکاسٹر رضاعلی عابدی اپنے بارے میںلکھتے ہیں کہ میں1968ءمیں صحافت کا ایک چھوٹا سا کورس مکمل کرنے کیلئے لندن آیا اور برطانیہ میں طرز زندگی کو قریب سے دیکھ کر ایک ذرا سا خیال ذہن میں آیا کہ کیوں نہ روزگار کا ذریعہ برطانیہ میں تلاش کیاجائے‘ میرے نوجوانی کے کئی دوست برطانیہ میں آباد ہوچکے تھے اور خوش تھے‘اخباری صحافت کی بارہ سال سے زیادہ کی مشقت اور مسلسل ریاضت کام آئی اور اگرچہ مجھے ریڈیو کا کوئی تجربہ نہیں تھا لیکن بی بی سی کو صحافت سے کام تھا‘ میں چن لیاگیا اور سخت چھان پھٹک کے بعد میں زندگی میں دوسری بار لندن کے ہوائی اڈے پر اترا‘ اب یہاں سے ہم آگے چلتے ہیں۔اخبار میں تقریباً پندرہ سال اور ریڈیو میں چوبیس برس گزارنے کے بعد میں اکثر کہاکرتاہوں کہ بی بی سی سے وابستگی کے برس بہت خوشگوار تھے‘ مجھے یاد ہے‘ میرے بچے کہا کرتے تھے کہ ابا روزصبح جب کام پر جاتے ہیں تو کتنے خوش نظر آتے ہیں‘ سچ تو یہ ہے کہ مجھے کسی بھی صبح یہ آرزو نہیں ہوئی کہ کاش آج چھٹی ہوتی اور دوسرا سچ یہ ہے کہ کبھی میری طبیعت خراب ہوتی تو عموماً ہفتے اور اتوار چھٹی والے روز ہوتی تھی۔

جب میں ریٹائر ہوا (1996) تو کچھ عرصے بعد ذیابیطس کی علامتیں ظاہر ہونے لگیں‘ اس پر میرے ساتھی وسعت اللہ خان نے کہا کہ یہ آپ کیلئے ریٹائرمنٹ کا تحفہ ہے یہ علامتیں پہلے بھی رہی ہوں گی مگر ابھریں سبکدوشی کے بعد‘ اسکے بعد بھی میں بارہ سال تک ہفتے میں دو روز خبریں نشر کرتا رہا‘ اس دوران براڈ کاسٹنگ میں جدید ٹیکنالوجی آگئی‘ ریل سے ریل کو چلنے والے ٹیپ کو دیس نکالا مل گیا اور ہر چیز ڈیجیٹل ہوکر کمپیوٹر میں سماگئی۔مجھے ٹیپ کی ریکارڈنگ اور ایڈیٹنگ کا غیر معمولی تجربہ ہوچکا تھا‘ اس وقت یہ ٹیپ ایک بلیڈ سے کاٹ کر غیر ضروری آوازیں نکال دی جاتی تھیں اور یہ کام میں بڑی مہارت سے کرتا تھا لیکن پھر ہوایہ کہ تین چار بڑے دستاویزی پروگراموں کی ایڈیٹنگ کرتے کرتے میری ایک کہنی میں درد رہنے لگا اور جب تک کمپیوٹر نہیں آیا یہ درد جار ی رہا۔آج کمپیوٹر میں ریکارڈنگ ہوتی ہے اور آواز کو سکرین پر لہروں کی شکل میں دیکھاجاتا ہے‘ آپ کو اختیار ہے کہ جو آواز چاہیں برقرار رکھیں اور جس آواز کی ضرورت نہ ہو اس پر نشان ڈالیں اور ایک بٹن دبائیں‘ وہ کوڑے دان میں چلی جاتی ہے‘بڑی جدید ایجاد ہے مگر سچ پوچھیے تو جو لطف ٹیپ میں تھا وہ کمپیوٹرمےں کہاں‘ مگر آج کل کے نوجوان براڈ کاسٹرہم پر ہنسا کرتے ہیں کہ ہم کیسی دقیانوسی مشینوں پر کام کرتے تھے۔