جمعرات کی صبح صدر ٹرمپ نے وائٹ ہاﺅس میں اخبار نویسوں کو بتایا کہ متحدہ عرب امارات اور اسرائیل میں ایک ایسا تاریخی معاہدہ طے پاگیا ہے جسکی رو سے دونوں ممالک میں سفارتی تعلقات قائم ہو جائیں گے اور اسرائیل ویسٹ بینک کے ادغام سے فی الحال دستبردار ہو جائیگا‘صدر ٹرمپ نے یہ اعلان دونوں ممالک کے سربراہوں سے سہ طرفہ ٹیلیفونک رابطے کے بعد کیا اس معاہدے کے نتیجے میں دونوںممالک انرجی‘ ٹیکنالوجی‘ سکیورٹی‘ ٹور ازم اور سرمایہ کاری میں ایکدوسرے کے ساتھ تعاون کریں گے عرب امارات تیسرا عرب ملک ہے جس نے اسرائیل کیساتھ مکمل سفارتی تعلقات استوار کئے ہیں اس سے پہلے مصر نے1979 میں اور اردن نے 1994 ءمیںاسرائیل کیساتھ امن معاہدے کئے تھے صدر ٹرمپ نے کہا کہ اس نئے معاہدے کے بعددوسرے عرب ممالک بھی اسرائیل کو تسلیم کرنیکی راہ پر چل پڑیں گے امریکی صدر نے یہ بھی کہا کہ یہ ڈیل ایک محفوظ‘ خوشحال اور پرامن مشرق وسطیٰٰ تخلیق کرنے کی طرف پہلا قدم ہے صدر ٹرمپ کے اس اعلان کے فوراّّ بعد اس معاہدے کے خلاف بیانات آنا شروع ہو گئے اسرائیل کے اندر تارکین وطن نے جو مغربی کنارے کے وسیع علاقے پر قبضہ کئے بیٹھے ہیںاور مزید زمینیں ہڑپنے کیلئے بیتاب ہیں نے اس معاہدے کی شدید مذمت کی۔روسی نیوز ایجنسی کے مطابق فلسطین اتھارٹی کے صدر محمود عباس نے مطالبہ کیا ہے۔
کہ عرب امارات کے سربراہ اس فیصلے کو واپس لیں اور دیگر عرب ممالک فلسطینیوں کے حقوق کو پامال کرتے ہوئے امارات کے نقش قدم پر نہ چلیں۔ اس معاہدے کے بعد فلسطین نے ابو ظہبی سے احتجاجاّّ اپنا سفیر واپس بلا لیا ہے فلسطین کی تنظیم پی ایل او کی ایگزیکیٹیو کمیٹی کے نمائندے احمد مجدالانی نے کہا ہے کہ یہ فلسطین کی تاریخ میں ایک سیاہ دن ہے اور عرب دنیا فلسطین کے بارے میں جو متفقہ مﺅقف رکھتی ہے یہ معاہدہ اس سے رو گردانی کے مترادف ہے مجدا لانی نے کہا کہ فلسطینی عوام نے کسی کو بھی اسرائیل کو مراعات دینے اور فلسطین کی تقدیر کا فیصلہ کرنے کا اختیار نہیں دیااس معاہدے کے بارے میں کہا جا سکتا ہے کہ اس نے کبھی نہ کبھی ہونا تھا دونوں ممالک گزشتہ ایک سال سے اس پر بات چیت کر رہے تھے اور انکا کئی معاملات میں ایکدوسرے کیساتھ تعاون کوئی ڈھکی چھپی بات نہ تھی اس سفارتی تعلق کو استوار کرنے میں کلیدی کردار صدر ٹرمپ کے داماد جیئرڈ کشنر نے ادا کیا ہے یہ معاہدہ ابو ظہبی کے حکمران شہزادہ محمد بن زید سے زیادہ صدر ٹرمپ اور اسرائیل کے وزیر اعظم بنجا من نتن یاہو کیلئے فائدہ مند ہے۔
امریکہ اور اسرائیل کے حکمرانوں کو داخلی محاذوں پر جن شکستوں اور مایوسیوں کا سامنا ہے انکے تناظر میں یہ ان کیلئے ایک بہت بڑی فتح ہے یہ ایک ایسی کامیابی ہے جسکی دونوں کو سخت ضرورت تھی اور جسکی حمایت امریکہ اور یورپ میں صدر ٹرمپ کے بدترین مخالف بھی کر رہے ہیں یہ معاہدہ مغربی ممالک کیلئے اتنی بڑی خبر ہے کہ نیو یارک ٹائمز جو چار سال سے مسلسل صدر ٹرمپ کی مخالفت کر رہا ہے نے اسکی حمایت میں اداریہ لکھا ہے جسکا عنوان ہے Geopolitical earthquake hits the Mideast یعنی ایک جیو پولیٹیکل زلزلے نے مڈل ایسٹ کو اپنی لپیٹ میں لے لیا ہے مغربی دنیا اس معاہدے کو حیران کن قرار دیتے ہوئے خوشی سے پھولے نہیں سما رہی اور دوسری طرف عرب دنیا نے اسکے رد عمل میں خاموشی اختیار کر رکھی ہے سعودی عرب نے ابھی تک اسکے بارے میں کوئی بیان نہیں دیا پاکستان کی وزارت خارجہ نے اس پر جو مختصر تبصرہ کیا ہے اسکا لب لباب یہ ہے کہ یہ معاہدہ دور رس اثرات کا حامل ہے اور پاکستان نے ہمیشہ اقوام متحدہ کے قوانین کے مطابق مسئلہ فلسطین کے دو ریاستی حل کی حمایت کی ہے یہ محتاط بیان ایک Balancing Act ہے جسمیں برادر ممالک کی خوشنودی کو مد نظر رکھتے ہوئے اس معاہدے کی مذمت سے اجتناب برتا گیا ہے ترکی اور ایران نے اس نئے تعلق پر شدید تنقید کی ہے جبکہ مصر‘ اردن اور بحرین نے اسے خوش آئند قرار دیا ہے ترکی کے وزیر خارجہ نے کہا ہے کہ عرب امارات نے اپنے مفادات کیلئے فلسطینیوں کو دھوکہ دیا ہے ایران نے اسے شرمناک اقدام قرار دیا ہے ان بیانات سے ظاہر ہوتا ہے کہ اس نئے بندوبست نے پہلے سے منقسم مشرق وسطیٰ کو مسلکی بنیادوں پر مزید تقسیم کر کے ایک نئے بحران سے دوچار کر دیا ہے اس میدان حرب و ضرب میں ایک طرف ایران‘ عراق اور شام ہیں اور دوسری طرف سعودی عرب‘ خلیجی ممالک‘ اردن اور مصر ہیں یہ تقسیم وہ خواب ہے۔
جسکی تعبیر حاصل کرنے کیلئے مغربی دنیا پچھلے چھہ عشروں سے ایڑی چوٹی کا زور لگا رہی ہے اس بندوبست کے بعد ایک اہم سوال یہ سامنے آیا ہے کہ عرب امارات نے فلسطینیوں کی پیٹھ میں چھرا گھونپ کر آخر حاصل کیا ہے شہزادہ محمد بن زید یہ کہہ رہے ہیں کہ انہوں نے پورے ویسٹ بینک کے اسرائیل میں ادغام کا راستہ روک لیا ہے یہ بات اسلئے درست نہیں کہ بنجامن نتن یاہو نے واضح الفاظ میں کہا ہے کہ وہ صرف ادغام میں تاخیر پر راضی ہوئے ہیں اور انہوں نے مغربی کنارے کے ساتھ الحاق کے منصوبوں کو مﺅخر کیا ہے اس اعتبار سے اسرائیل نے عرب امارات کو محض ترقی اور خوشحالی کا لالچ دیکر بہت کچھ حاصل کر لیا ہے اب جیئرڈ کشنر بحرین‘ اومان ‘ قطر اور کویت کے حکمرانوں کو بھی سبز باغ دکھا کر اسرائیل کیساتھ تعلقات قائم کرنے کی ترغیب دیں گے اس سلسلے کا ایک اہم فیصلہ شہزادہ محمد بن سلیمان نے کرنا ہے جب تک ریاض کے حکمران تل ابیب کیساتھ تعلق استوار نہیں کرتے اسوقت تک یہ نہیں کہا جا سکتا کہ اسرائیل کو اسلامی دنیا نے تسلیم کر لیا ہے کیا سعودی عرب اس سمت میں کوئی پیش رفت کریگا اسکے آثار فی الحال نظر نہیں آ رہے اسکی وجہ یہ ہے کہ سعودی عرب کی کاروباری اشرافیہ اتنی طاقتور نہیں ہے۔
جتنی کہ عرب امارات کی ہے دوسری وجہ یہ ہے کہ ریاض کے داخلی معاملات اتنے آزاد اور آسان نہیں ہیں جتنے دیگر عرب ریاستوں کے ہیںعرب امارات کے اس حیران کن فیصلے کے بعد دوسرا اہم سوال یہ ہے کہ ارض فلسطین کا مستقبل کیا ہے اسکا جواب یہی ہے کہ اسرائیل گزشتہ ساٹھ برسوں سے نہ تو مقبوضہ علاقوں پر قبضہ ختم کر رہا ہے اور نہ ہی وہ دو ریاستی حل کی طرف کوئی پیشقدمی کر رہا ہے اسکی اس ہٹ دھرمی کے باوجود اگر عرب ممالک اس سے تعلقات بحال کر لیتے ہیں تو پھر اسرائیل کو اقوام متحدہ کی قراردادوں پر عملدر آمد کی کوئی ضرورت نہیں رہتی صیہونی ریاست اگر ایک انچ زمین دیئے بغیر عرب دنیا سے دوستی گانٹھ لیتی ہے تو اسے وہ شرف قبولیت اور اپنائیت حاصل ہو جائیگی جسکے لئے وہ اہل فلسطین کیساتھ تنازعے کو حل کرنے کی کوشش کر رہی تھی عرب دنیا اگر کبھی فلسطین سے بیزار ہو کر امریکہ اور اسرائیل کے جھانسے میں آجاتی ہے تو اس صورت میں بھی مسئلہ فلسطین اپنی جگہ موجود رہیگا فلسطین کے پچپن لاکھ عوام کو بحیرئہ روم میں نہیں دھکیلا جا سکتا اسرائیل اگر ایک جمہوری ریاست بننا چاہتا ہے تو اسے فلسطینیوں کے حق خود ارادیت کو تسلیم کرنا پڑیگا ورنہ ایک اکثریت کو اسکے بنیادی انسانی حقوق سے محروم کر کے اسرائیل ہمیشہ ایک نسل پرست صیہونی ریاست ہی رہیگا۔