ذرائع ابلاغ میں ریڈیو کو ایک خاص حیثیت حاصل ہے ریڈیو سے وابستہ ذمہ دار لوگوں کی زندگی میں بعض واقعات یادگار ہوتے ہیں جو نہایت دلچسپی سے سنے اور پڑھے جاتے ہیں معروف براڈ کاسٹر آغا ناصر پہلے مارشل لاءسے متعلق اپنی یادداشتوں میں لکھتے ہیں کہ 1958 میں جب ریڈیو پاکستان میں پروڈیوسر تھا تو پہلا مارشل لاءلگ گیا‘ اسے عرف عام میں ایوب خان کا مارشل لاءکہتے ہیں‘ خود چیف مارشل لاءایڈمنسٹریٹر بھی ایک خوبرو‘ صحت مند‘ سرخ و سفید اور دراز قد فوجی افسر تھا‘ انگلستان کی The Royal Military Academy سے فارغ التحصیل تھا‘ انگریزی بہت روانی سے بولتا تھا‘ اردو ذرا کمزور تھی مگر قدرت اللہ شہاب نے جو ان کے سیکرٹری تھے‘ جلد ہی اردو میں انہیں خاصا ماہر کردیا‘ اس سلسلہ میں سید محمد جعفری کا یہ قطعہ کافی ہے۔صدر عالی جناب کیا کہنا وہ سوال و جواب کیا کہنا ہےکیا سکھایا ہے کیا پڑھایا ہے قدرت اللہ شہاب کیا کہنا حکومت پر اپنی گرفت مضبوط کرنے کے بعد ایوب خان نے یہ فیصلہ کیا کہ ان کا تعلق براہ راست پاکستانی عوام سے ہونا چاہئے‘ لہٰذا ہفتے میں دو تین بار مختلف شعبہ ہائے زندگی سے تعلق رکھنے والوں سے ان کی ملاقاتیں کرائی جانے لگیں‘ وہ ان سے خطاب فرماتے تھے‘ صحافیوں‘ تاجروں‘ طالب علموں‘ سرکاری ملازمین‘ ادیبوں‘ دانشوروں اور زندگی کے مختلف شعبہ سے تعلق رکھنے والوں کے ساتھ یہ اجتماعات ہوتے تھے‘ میری ڈیوٹی صدر کی تقریر کو ریکارڈ کرنا اور ضروری اصلاح کے بعد ریڈیو پر نشر کرنا تھا۔
تاکہ سارا پاکستان ان کی تقریر سن سکے‘ صدر ایوب نے روزانہ تقریریں کرکے جلد ہی اپنی اردو سدھار لی‘ تلفظ کی تو خیر تھی لیکن گرامر کی کوئی فاش غلطی کرتے تھے تو میں ایڈیٹنگ میں اسے نکال دیتا تھا‘ رفتہ رفتہ مجھ پر ان کا اعتماد بڑھتا گیا اور یہی وجہ تھی کہ 1963ءمیں جب وہ نیپال کے سرکاری دورے پر جارہے تھے تو انہوں نے بطور خاص اپنی ریڈیو کوریج کے لئے مجھے ساتھ لے جانے کا حکم دیا‘ نیپال کے مختصر دورے میں چونکہ ہر وقت کا ساتھ تھا اس لئے یہ قربت کچھ اور بھی بڑھ گئی‘ پہلے مارشل لاءکا پہلا دن میں نے شہر میں گھوم پھر کر گزارا‘ سڑکوں پر ادھر ادھر کہیں کہیں فوجی گشت کرتے نظر آرہے تھے‘ یوں بھی 1947ءکے بعد یہ بہت بڑا واقعہ تھا‘ ایک نیا تجربہ کہ اس ملک پر اب فوج کی حکمرانی ہوگی‘ جب میں ریڈیو سٹیشن پہنچا تو وہاں بہت سخت انتظامات تھے‘ استقبالیہ میں ایک فوجی کپتان بیٹھا تھا‘ کچھ دیر بعد جنرل ایوب اپنی تقریر کی ریکارڈنگ کرانے کےلئے ریڈیو اسٹیشن آئے‘ جنرل صاحب نے انگریزی میں تقریر کی‘ جس کا اردو ترجمہ بعد میں بخاری صاحب نے اپنی آواز میں پڑھا۔