معیشت اورگرانی کاسفر

 پرانے لاہور کا حال سننے کو جی چاہا تو شہر میں میاں امیر الدین صاحب سے زیادہ موزوں شخصیت کوئی نہ تھی میاں صاحب کا گھرانا بہت پرانا ہے 1985ءمیں خود ان کی عمر چورانوے برس تھی 1911ءمیں وہ گریجویٹ ہوئے تھے خلافت تحریک میں وہ سرگرم تھے اور پاکستان کی تحریک میں آگے آگے تھے میں میاں امیر الدین صاحب سے ملا تو خوشی ہوئی شہر لاہور کی طرح وہ بھی ضعیفی کے باوجود بہت زندہ دل تھے میں نے پوچھا کہ آپ کی نوجوانی کے دنوں میں شہر لاہور کتنا بڑا تھا؟میاں صاحب نے بتایا اس وقت آبادی سرکلرروڈ کے اندر تھی آبادی لاکھ ڈیڑھ لاکھ ہوگی چھوٹا راوی کے پل کے پاس جنگلی مرغابیاں اترا کرتی تھےں اب جہاں تک نگاہ جاتی ہے وہاں تک آبادی جاتی ہے بتانے لگے کہ شروع میں کھاتے پیتے گھرانے ہندوﺅں اور خصوصاً کشمیری پنڈتوں کے تھے مسلمانوں کے صرف چار پانچ صاحب حیثیت خاندان تھے ساری تجارت ہندوﺅں کے ہاتھ میں تھی اس وقت مسلمان یا تو سبزی بیچتے تھے یا درزی تھے یا موچی تھے اور ان کی مالی حالت ایسی تھی کہ کم سے کم نوے فی صد مسلمانوں کی جائیداد گروی ہوگئی تھی ان ہی دنوں ایک بلاتی سا ہوکار تھا میرا اچھا واقف تھا برا آدمی نہےں تھا اپنی بات پر اور معاملے پر قائم رہتا تھا میں نے اس سے کہہ سن کر بڑے بڑے لوگوں کے ہزاروں روپے چھڑوا دیئے تعلیم کی یہ حالت تھی کہ میں 1906ءمیں گورنمنٹ کالج میں داخل ہوا اس وقت پانچ سو میں سے صرف اسی طالبعلم مسلمان تھے۔

 استادوں میں صرف ایک مولوی ابراہیم عربی کے استاد تھے باقی سب ہندو اور انگریز تھے میاں امیر الدین صاحب اپنے دادا کے بارے میں بتارہے تھے لاہور گورنمنٹ کالج 1875ءمیں انہوں نے بنایا تھا بڑی ہی ٹھوس عمارت ہے وہ ٹھیکیدار تھے مگر بہت دیانت دار تھے میری شادی پر انہوں نے علاقے کے ہر شخص کو دوسیر مٹھائی تقسیم کی تھی بہت سستا زمانہ تھا شادی کے کھانے پر فی کس چار آنے خرچ ہوتے تھے جس میں پلاﺅ دہی ‘قورمہ ‘زردہ اور فرنی وغیرہ ہوتی تھی۔ میاں صاحب نے کھانے والوں کا حال بھی مزے لے کر سنایا کہنے لگے اس وقت لوگوں میں عزت نفس بہت تھی شادی بیاہ میں دسترخوان بچھائے جاتے تھے اور ان پر کھانا چن دیا جاتا تھا کیامجال کہ کوئی مہمان کھانے کو ہاتھ بھی لگائے صاحب خانہ کہتا تھا بسم اللہ تب کھانا شروع ہوتا تھا اور آج کل لوگ ایک دوسرے کے آگے سے ڈونگے کھینچتے ہےں۔میاںامیر الدین صاحب تحریک پاکستان میں پیش پیش تھے لاہور میں23مارچ 1980ءکو قرار داد پاکستان منظور ہونے کا منظر انہوں نے بہت قریب سے دیکھا میں نے پوچھا کہ اس کے بعد مسلمانوں کی کیا کیفیت تھی کہنے لگے بات یہ ہے کہ اس سے پہلے مسلمانوں کے پاس کوئی Objectiveنہےں تھا وہ مل گیا پھر تو کیفیت بالکل بدل گئی ہرطرف لے کے رہےں گے پاکستان کا نعرہ تھا(رضا علی عابدی کے نشر پروگرام سے اقتباس)