میرا بیٹا سائیکالوجی میں ڈاکٹریٹ کرنے امریکہ گیا تو اس کی ڈاکٹریٹ میں ذرا دیر لگی میرے حساب سے تو میں ایک احساس والے باپ کی طرح ناراض ہوا کہ بھئی اتنی دیر کیوں لگائی ہے آپ لوگ بھی کبھی کبھی گھر میں ناراض ہوتے ہوں گے میں نے کہا کہ میں اس سے جا کے پوچھوں کہ کیا بات ہے‘ پچھلے سے پچھلے سال میں وہاں گیا ¾تو اس کے ٹیچر سے ملا ¾ تو انہوں نے کہا کہ نہیں ¾ یہ تو بڑا اچھا ہے ¾ کوئی شکایت نہیں ¾ بلکہ ہم تو یہ چاہیں گے کہ یہ اور کچھ دیر تک ہمارے پاس رہے اور ہم اس سے کچھ فائدہ اٹھالیں یوں میری تسلی ہوگئی‘یونیورسٹی سے گھر جاتے ہوئے میں اس کی کار میں بیٹھا تھا اور وہ کار چلا رہا تھا ہماری گاڑی سے آگے ایک اور شخص گاڑی لے جا رہا تھا اور وہ آہستہ آہستہ چلا جا رہا تھا اور ہچکولے بھی کھا رہا تھا تو میں نے اپنے بیٹے سے کہا کہ ہارن بجاﺅ اور اس کو ایک طرف کرو ‘تواس نے کہا کہ ابو میں ابھی کچھ بندوبست کرتا ہوں ¾ تو میں نے کہا کہ بھئی آپ اس کو ہارن دیں تو وہ کہنے لگا کہ ابو یہاں ہار دینے کا رواج نہیں ہے ¾ میں نے کہا کہ وہ تو Silence Zoneہوتا ہے یہ تو ویرانہ ہے تو اس نے کہا کہ بس ہارن نہیں دیتے ہیں نا۔ میں نے کہا کہ کیوں نہیں دیتے۔
کہنے لگا کہ میں اس لئے نہیں دیتا ہوں کہ یہ آگے جانے والا مجھ سے عمر میں ذرا بڑا ہے بہت ممکن ہے کہ اس نے نئی گاڑی چلانی سیکھی ہو اور میں اگر ہارن دوں گا تو وہ گھبرا جائے گا اور اس کا نقصان ہوگا تو میں یہ نہیں چاہتا میں نے کہا کہ دفع کرو ¾ اس کا نقصان ہوتا ہے تو ہو ¾ تمہیں اس سے کیا۔ بجا ہارن اور اس کو ہٹا۔ کہنے لگا کہ نہیں....میں معافی چاہتا ہوں ابو۔یہ ذرا مشکل ہے میں یہ اسلئے نہیں کر سکتا کہ یہ میرا کولیگ ہے اوہ میں نے کہا ¾ اچھا۔ کیا یہ یونیورسٹی میں تمہارے ساتھ پڑھتا ہے یا پڑھاتا ہے اس نے کہا کہ نہیں پڑھتا پڑھاتا نہیں ہے میں نے کہا کہ یہ تمہارا کلاس فیلو ہے ؟تو اس نے کہا کہ نہیں بلکہ یہ میرا روڈ فیلو ہے ہم ایک ہی سڑک پر جا رہے ہیں اس رشتے سے ہم ایک دوسرے کے فیلو ہیں ہم اسے تنگ نہیں کرسکتے۔(اشفاق احمد کے نشرپروگرام سے اقتباس)