خوبصورت دن

 سراج دین نامی ایک مزدور تھا‘ آج سے بہت سال پہلے کی بات ہے میں اپنا دفتر بنوا رہا تھا‘ جب مزدور کی دیہاڑی تیس روپے روزانہ ہوتی تھی‘سراج چپس گھسانے کا کام جانتا تھا‘ بہت ذہین اور خوبصورت آدمی تھا‘ اچھی بات کرتا تھا اور بہت کم گو تھا‘ خوب صورت بات کرتا تھا اور لوگ اس کو 30 روپے دیہاڑی کے بجائے50 روپے دیتے تھے کیونکہ وہ اپنے فن کا ماہر تھا‘ وہ اپنے فن پر پوری استقامت کےساتھ حاوی تھا۔ایک بہت اچھا دن تھا 25، 26 دسمبر کی بات ہے‘ دھوپ بہت اچھی نکلی ہوئی تھی‘ میں جب دفتر آیا تو سب لوگ کام کررہے تھے‘ کام بہت تیزی کےساتھ ہو رہا تھا میں نے ٹھیکیدار سے پوچھا سراج نہیں آیا؟ اس نے کہا‘ نہیں آیا‘ میں نے کہا، کیوں نہیں آیا؟ کہنے لگے کوئی پتہ نہیں‘ میں غصے میں سراج کے گھر گیا‘میں نے کہا ‘ تو مجھے بتا تو آیا کیوں نہیں‘ اس نے کہا‘ کوئی خاص وجہ نہیں تھی‘ میں نے کہا‘کیوں نہیں آیا‘ تمہیں ساری وضاحت دینا پڑے گی‘ اس نے کہا بات یہ ہے کہ یہ جو کنستر ہے ناں جی مٹی ڈال کر نرگس کا ایک پودا لگایا تھا کل شام‘جب میں گھر آیا ہوں تو اس میںایک پھول کھلا ہوا تھا تو مجھے بڑا اچھا لگا‘ دیکھیں ہمارے گھر میں آج ایک نرگس کا پھول ہے‘ یہ میں آپ کو دیتاہوں‘ اس کی خوشبو دیکھیں کتنی اچھی ہے‘ میں تمہارے اس پھول کو بالکل قبول نہیں کرتا‘ میں تمہارے اس کنستر کو باہر پھنکوادوں گا‘ تم کیا فضول بات کیلئے یہاں رہ گئے، تم کو آنا چاہئے تھا‘ ساتھ ہی کہنے لگا‘سرجی جب میں گھر آیا ہوںتو میری بیوی نے مجھے کہا کاکا چلنے لگ گیا ہے‘ پہلے رڑھتا‘گھٹنوں چلتا تھا‘ آج پہلا دن ہے کہ وہ ڈگ مگ ڈولے چلا ہے‘ میں نے کہا، وہ تو سوگیا ہے‘۔

 کہنے لگی ہاں‘ میں نے کہا‘ اس کو جگاﺅ میں تو اس کو چلتے ہوئے دیکھنا چاہتا ہوں‘ اس نے کہا کمال کرتے ہو کاکا توسویا ہوا ہے‘ میں اس کو کیسے جگاﺅں‘ کہنے لگا‘صبح اٹھتے ہی پہلا کام میں نے یہ کیا‘ میں ادھر بیٹھ گیا ‘بیچ میں اپنا بچہ چھوڑ دیا‘ چھوٹا بچہ تھپ تھپ کرتا کبھی ادھر جاتا تو کبھی ادھر جاتا تھا‘ صاحب زندگی روشن ہوگئی‘ کنستر میں پھول کھلا تھا‘ چھوٹا بچہ تھپ تھپ کرتا ادھر ادھر جاتا تھا‘ سرجی! ہمیشہ آج کا دن دھندلا دن ہوتاہے لیکن آج بڑا خوبصورت دھوپ والا دن تھا‘ اتنا خوب صورت دن پچاس روپے میں تو نہیں بیچا جاسکتا‘ سر میں کل آجاﺅں گا‘ رات بھی لگا دوں گا آپ کہیں گے تواور آدھی چھٹی بھی نہیں کروں گا لیکن اس خوبصورت دن کو آپ رہنے دیں‘ اتنا سستا نہیں بیچا جاسکتا‘ میں نے کہا‘ پانچ سو روپے کا بیچتے ہو‘ کہنے لگا‘ نہیں‘ وہ تو حال پر راضی تھا۔
(اشفاق احمد کے نشر پروگرام سے اقتباس)