دنیا حیران ہے کہ پاکستان جیسے ترقی پذیر ملک نے کورونا جیسی خطر ناک صورتحال پر کیسے قابو پا لیا ہے گوکہ ابھی مکمل قابو نہیں پایا جا سکا تاہم آبادی کو مد نظر رکھتے ہوئے موجودہ دنوں میں کورونا کے مرض میں مبتلا افراد‘ اموات اور ریکوری کرنے والوں کی تعداد کا سن کر‘ دیکھ کر‘ ہر ایک مشاہدہ کرنا چاہتا ہے کہ یہ سب کیسے ہوگیا‘ حکومت پاکستان اسے اپنی بہتر حکمت عملی اور اللہ کا خاص احسان قرار دے رہی ہے۔ عوام بھی خوش ہیں کہ پابندیوں سے بھی تو آزادی بلکہ آزادیاں مل رہی ہیں بس تعلیمی ادارے کھلنے اور شادی ہالوں میں پھر سے رونقیں لگنے کا انتظار کیا جا رہا ہے۔ یہ ایک اچھی خبر ہے یعنی کورونا یہاں پنجے نہ گاڑ سکا تاہم دوسری جانب مہنگائی اور خاص طور پر مصنوعی مہنگائی نے عوام کا بھڑکس نکال دیا ہے جس کے بعد یہی عوام یہ سوچنے پر مجبور ہیں کہ کوویڈ 19 جیسی عالمی وباءپر تو حکومت‘ حکمران قابو پانے میں کامیاب دکھائی دے رہے ہیں مگر دوسری جانب مہنگائی ان کے قابوں میں کیونکر نہیں آرہی ہے اور کیوں حکمران مصنوعی مہنگائی پیدا کرنے والے مافیا کے سامنے بے بس دکھائی دے رہے ہیں اور یہ سوال اب تو ہر ایک کی زبان پر آنا شروع ہوگیا ہے کہ کیا مصنوعی مہنگائی پیدا کرنے والے مافیاز کے سامنے انتظامیہ ہی نہیں حکمران بھی بے بس ہیں۔ اس سے پہلے کہ ہم مصنوعی مہنگائی کے حوالے سے بات کریں پہلے حکومتی اعتراف کو سامنے رکھتے ہیں جس میں بتایا گیا ہے کہ مہنگائی بڑھی ہے‘ ادارہ شماریات نے رواں ماہ اپنی ہفتہ وار رپورٹ میں اس بات کا اعتراف کیا ہے کہ پاکستان میں 20 اگست کو ختم ہونے والے ہفتہ کے دوران مہنگائی مزید صفر اعشاریہ 96 فیصد بڑھی ہے۔ 20 اگست 2019 ءسے لے کر 20 اگست 2020 ءکے دوران یعنی ایک سال کے دوران عام آدمی کے استعمال کی اشیاءکی قیمتوں میں کل 8 فیصد اضافہ ہوا ہے۔ ادارہ شماریات کے اعداد و شمار کے مطابق گزشتہ ہفتے کہ جس کے اعداد و شمار سامنے لائے گئے 20 اشیائے ضروریہ مہنگی ہوئیں۔ ان اشیاءمیں چینی بھی شامل ہے جس کی قیمتیں مسلسل بڑھتی ہی جا رہی ہیں اور خاص طور پر ملک بھر کی نسبت خیبر پختونخوا میں تو یہ بہت بڑھی ہیں۔ اسی طرح برائلر مرغی اور ٹماٹر بھی مہنگے ہوئے ادارہ شماریات کے مطابق صرف ایک ہفتے میں آلو‘ آٹا‘ دودھ‘ دہی‘ چاول‘ دال چنا‘ دال مسور‘ لہسن‘ چھوٹا بڑا گوشت مہنگے ہوئے تاہم 9 اشیاءایسی بھی ہیں جن کی قیمتوں میں کمی واقع ہوئی ہے۔ ان اشیاءمیں انڈے‘ پیاز‘ دال مونگ‘ کیلا‘ کوکنگ آئل‘ گھی‘ دال ماش اور ایل پی جی سلنڈر شامل ہیں جن کی قیمتوں میں کمی کا رجحان پایا گیا۔ اسی طرح آٹا بحران خاص طور پر خیبر پختونخوا اور پشاور میں سر چڑھ کر بول رہا ہے‘ حکومتی اور انتظامی اقدامات کے کچھ واضح نتائج سامنے نہیں آرہے روٹی بحران نے غریبوں کی ہی نہیں‘ متوسط طبقہ سے تعلق رکھنے والے افراد کو بھی خوب پریشان کر رکھا ہے۔ روٹی انسان کی بنیادی ضرورت ہے اور جب انسان کو روٹی ہی میسر نہ ہو تو پھر وہ خودکشی کرنے پر مجبور ہو جاتا ہے‘ اگر ایسا نہ کر سکے تو پھر وہ جرائم کا ارتکاب کرنے لگ جاتا ہے۔ ماہرین کے مطابق ہمارے ہاں جرائم کی بڑھتی شرح اسی سبب ہو رہی ہے کہ بنیادی ضروریات تک پوری نہیں ہو رہی ہیں۔
اس لئے تو ہر کوئی یہ سوال کر رہا ہے کہ آخر ہماری پرائس کمیٹیاں کہاں ہیں؟ کیوں ان کمیٹیوں یا دیگر ذمہ داران کی آئے روز کی کاروائیاں موثر ثابت نہیں ہو رہی ہیں۔ بزرگ تو حیران اور پریشان ہیں‘ چالیس پچاس سال کی عمر کے افراد بھی محسوس کرتے ہیں یاد کرتے ہیں کہ وہ بھی کیا زمانے تھے جب سو روپے کا نوٹ کھلوایا جاتا تھا تو یہ کئی کئی دل چلتا تھا‘ پیسے ختم نہ ہوتے تھے اور اب صورتحال یہ ہے کہ ہزار روپے کا نوٹ بھی مذاق بن چکا ہے۔ اور سمجھ نہیں آتی کہ یہ مہنگائی ہے یا بے برکتی؟ غرض مہنگائی کے باعث ہر چیز کی قیمتوں کو آگ لگی ہوئی ہے۔ مہنگائی اور مصنوعی مہنگائی سے ہٹ کر اگر دیکھنا جائے اور فوکس ملک کی معیشت پر کیا جائے تو چند ایک حوصلہ افزا اور مستقبل کے حوالے سے اچھی اچھی خوشخبریاں بھی ہیں‘ جی ہاں عالمی وباءکہ جس نے ملکوں کی معیشت کی بہت نقصان پہنچایا‘ پاکستان بھی اس سے متاثر ہوا تاہم انہی ایام اور اس وباءکے دوران پاکستانی معیشت نے بلندی کی جانب پرواز کرنا بھی شروع کر دی ہے۔ جی ہاں ملک بھر میں ماہرین معاشیات ان اعداد و شمار پر بہت خوش اور مطمئن دکھائی دے رہے ہیں اور ان حکومتی اقدامات کی تعریف کی جا رہی ہے جن کے باعث معیشت میں استحکام کے اشارے دکھائی دے رہے ہیں اگر رواں مالی سال کے حوالے سے بات کی جائے تو سب سے پہلے تو برآمدات میں اضافے کی خبروں نے پریشان حال حکمرانوں اور عوام کوخوشی کے لمحات میسر کئے ہیں جب وزارت تجارت کی جانب سے باقاعدہ یہ بات سامنے آئی کہ رواں مالی سال کے پہلے ہی مہینے میں سالانہ بنیاد پر برآمدات میں 5.8 فیصد اضافہ ہوا یعنی دس کروڑ نولے لاکھ ڈالر اضافہ ہوا اور یہ ایک ارب 99 کروڑ 80 لاکھ ڈالر رہی جس کا گزشتہ سال کا حجم ایک ارب 88 کروڑ 90 لاکھ ڈالرز تھا۔ ابھی اس خوشخبری پر اعلیٰ حلقے شادمان ہی تھے کہ ایک اور خبر نے پھر سے خوشیوں کے شادیانے بجانے شروع کر دیئے۔ جی ہاں معیشت دان خوش خوش دکھائی دیئے‘ اب کی مرتبہ خوشخبری ملک کے کرنٹ اکاﺅنٹ خسارے میں کمی کی سنائی گئی۔ سٹیٹ بینک آف پاکستان کے جاری کردہ اعداد و شمار کے مطابق مالی سال 2019-20 ءمیں ملک کا کرنٹ اکاﺅنٹ خسارہ 77.92 فیصد کم ہو کر 2 ارب 96 کروڑ 66 لاکھ ڈالرز رہ گیا تھا جبکہ جون میں کرنٹ اکاﺅنٹ خسارہ 90.21 فیصد کمی کے بعد 9 کروڑ 60 لاکھ ڈالر ہوگیا تھا‘ چند روز قبل کارکردگی رپورٹ کے حوالے سے بریفنگ دیتے ہوئے مشیر خزانہ ڈاکٹر عبد الحفیظ شیخ نے بتایا کہ حکومت نے اخراجات میں کمی یعنی اخراجات آمدن سے کم کرتے ہوئے ماضی کی حکومتوں میں ورثے میں ملنے والے 20 ارب ڈالر کے کرنٹ اکاﺅنٹ خسارے کو کم کرکے تین ارب ڈالر تک پہنچا دیا ہے ۔
وزیراعظم پاکستان عمران خان نے بھی ٹوئٹ کرتے ہوئے خوشخبری سنائی کہ پاکستان کی معیشت درست راہ پر گامزن ہو چکی ہے اور رواں مالی سال کے پہلے مہینے میں کرنٹ اکاﺅنٹ میں 42 کروڑ 40 لاکھ ڈالر اضافی جمع ہو چکے ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ مالی سال 2019-20ءکے ماہ جولائی میں کرنٹ اکاﺅنٹ خسارہ 61 کروڑ 30 لاکھ ڈالر تھا جو جون 2020ءمیں کم ہو کر 10 کروڑ ڈالر رہ گیا تھا تاہم صورتحال میں مزید بہتری دیکھنے میں آئی اور جولائی میں کرنٹ اکاﺅنٹ سر پلس ہوگیا۔ انہوں نے بھی کرنٹ اکاﺅنٹ میں بہتری کی وجہ جون 2020ءکے مقابلے میں 20فیصد زائد برآمدات اور ریکارڈ ترسیلات زر کو قرار دیا۔ یاد رہے کہ نئے مالی سال کے پہلے ماہ یعنی جولائی ہی میں ملک میں 2 ارب 76 کروڑ 80 لاکھ ڈالر کی ریکارڈ ترسیلات زر موصول ہوئی تھیں۔ واضح رہے کہ برآمدات میں اضافہ اور بیرون ملک پاکستانیوں کی جانب سے آنے والی ترسیلاب زر کے باعث یعنی ان دونوں مدات میں آنے والے اضافی زرمبادلہ نے ملک کے کرنٹ اکاو¿نٹ کو تقویت فراہم کی ہے اور اسے 424 ملین ڈالر سرپلس کی سطح پر پہنچا دیا ہے، بلاشبہ یہ ملکی معیشت کے لئے حوصلہ افزاءصورتحال
ہے ۔