ہنڈکی تاریخ

 میں پشاور سے چلا تو بالاحصار کے نیچے ایک پتھر لگا ہوا نظر آیا‘ اس پر بڑے حرفوں میں شاہراہ پاکستان لکھا تھا اور کسی وزیر کا نام لکھا تھا جس نے کبھی وہ پتھر وہاں لگایا ہوگا کیسا دلچسپ اتفاق ہے سڑک اور وزیر دونوں آنی جانی چیزیں ہیں‘وادی پشاور اب بھی بہت سرسبز نظر آرہی تھی جن زمینوں کو آتے جاتے لشکروں نے بار بار روندا ہوگا وہ اب تک ہری بھری تھیں۔ کبھی ریلوے لائن سڑک کے قریب آجاتی تھی کبھی بجلی کے بڑے بڑے کھمبے اور موٹے موٹے تار ساتھ ساتھ دوڑنے لگتے تھے۔ بستیاں آتی تھیں اور گزر جاتی تھیں‘ رمضان کا مہینہ تھا انکے چائے خانے بند پڑے تھے اس تمازت کے عالم میں کہیں سے اچانک دریائے کابل آگیا یہ نوشہرہ کے قریب آجانے کی پہچان تھی‘یہ شہر شاید اکبر نے آباد کیا تھا کبھی یہاں دریا کے دائیں کنارے پر نوشہرہ خرد اور بائیں کنارے پر نوشہرہ کلاں، یہ دو گاﺅں تھے ایک سرائے بھی تھی جس میں جہانگیر ٹھہرا تھا۔ ایک قلعہ بھی تھا مگر تمام سرائیں اور تمام قلعے گزرتے قافلوں کی گرد میں مل کر خود بھی گرد ہو جایا کرتے تھے۔

 اب ہم دریا دریا چل رہے تھے جہاں تک نگاہ جاتی تھی وہاں تک زمین تھی اسکے آگے بھی زمین تھی اور ان ہی زمینوں میں وہ چھوٹا سا گاﺅں ‘ لہور‘ آج بھی آباد تھا ۔ کچھ اور آگے ایک اور گاﺅں ہنڈ تھا اس مشینی دور میں جاننے کی فرصت کسے ہے کہ یہی ہنڈ کبھی گندھارا کا پایہ تخت تھا یہیں آکر سکندر نے سندھ پار کیا اور چنگیز خان یہیں سے دریا کا پاٹ دیکھ کر واپس چلا گیا تھا یہیں محمود غزنوی نے پنجاب کے راجا جے پال کو شکست دی تھی اسی کو مورخوں نے ہندوستان کا دروازہ کہا تھا۔اچانک خیر آباد آگیا‘سامنے دریائے سندھ شاہانہ انداز میں بہا چلا جا رہا تھا جس کے دوسرے کنارے پر عظیم الشان قلعہ اٹک تھا اکبر اعظم کا اٹک بنارس‘ چارصدیوں کا عینی شاہد کتنے ہی زمانوں کا چشم دید گواہ۔اٹک کے قلعے میں اب فوج رہتی ہے اس لئے عام لوگوں کو اندر جانے کی اجازت نہیں بہت سوچتا ہوں کہ اندر سے یہ قلعہ کیسا ہوگا۔(رضا علی عابدی کے نشر پروگرام سے اقتباس)