اس تحریر کو سنجیدگی سے نہ دیکھیں اور نہ ہی اس پر کوئی محققانہ نظر ڈالیں یہ بھی سر راہ ہے ” آنکھیں میری باقی ان کا “ والا قصہ ہے ۔ ہم ذرا مریم نواز کی عدالت میں پیشی پر ایک طائرانہ نظر ڈالتے ہیں لیکن اس سے قبل یہ ضروری ہے ہم داستان گو کی داستان طرازی پر بھی نظر ڈالتے جائیں مدعا یہ تھا کہ عدالت کے سامنے ہنگامہ بپا کیا جائے ۔ ایسا ہنگامہ جس کی مثال نہ ہو ۔ داستان گو کہنے لگا سنگ باری کی جائے ۔ سوال یہ اٹھا کہ سنگ کہاں سے لائے جائیں داستان گو کہتا ہے سنگ ہمراہ ہونے چاہئیں ۔ تو سنگ و خشت کو تھیلوں میں مقید کیا گیا ۔ تا کہ بوقت ضرورت کام آئیں ۔ لہٰذا پس منظر میں سٹیج سج گیا ۔ اب سوال یہ کہ ہنگامہ آرائی کیسے کی جائے، داستان گو پھر گویا ہوا اپنے آپ پر سنگ باری کی جائے ، اپنے ہی لوگوں پر سنگ برسائے جائیں ۔ سوال اٹھا کہ پہلا پتھر کون پھینکے گا ۔ داستان گونے پھر سر اٹھایا اور گویا ہوا کہ ملک میں تھوڑی بے روزگاری ہے ؟
سنگ باری کو روزگار کا ذریعہ بنایا جائے
تو قادر و عادل ہے مگر تیرے جہاں میں
ہیں تلخ بہت بندہ مزدور کے اوقات
جب برات عاشقاں عدالت کے قریب پہنچی تو سنگ باری کا ہنگامہ بپا ہوگیا ۔ سنگ بار نے حق نمک ادا کرنے کیلئے ایک ایسا پتھر پھینکا جس سے بلٹ پروف گاڑی کا شیشہ ٹوٹ گیا ۔ غور کرنے کی بات ہے کہ گاڑی بلٹ پروف تھی ۔ لیکن ایک سنگ بدست نے ایسا نشانہ مارا کہ دنیا حیران رہ گئی ہے اور ساتھ ہی میڈیا نے پلاسٹک کے بھرے بھرے تھیلے ٹی وی پر دکھانا شروع کیا ۔ ایک کوتاہ اندیش نے تو کہہ دیا کہ ان پلاسٹک کے تھیلوں میں پھول تھے ۔
سنگ اٹھایا تھا کہ سر یاد آیا
اس پر یاد آتا ہے کہ اس کوتاہ اندیش نے اپنے رہبر کارواں کے نقش قدم پر چلتے ہوئے نا مکمل حافظے کا اظہار کردیا جس طرح رہبر کارواں نے ایک بیان میں کہا تھا کہ ہندوستان اور پاکستان کے لوگوں میں یکسانیت ہے ان کا بھی وہی کلچر ہے جو ہمارا ہے ۔ ان کا بھی وہی رہن سہن ہے جو ہمارا ہے ۔ان کا بھی وہی تمدن ہے جو ہمارا ہے ۔ وہ بھی آلو گوشت کھاتے ہیں جو ہم بھی کھاتے ہیں ۔ یہاں رہبر جادواں بھول گئے کہ ہندو گوشت نہیں کھاتے ۔ وہ گاﺅ ماتا کی پوجا کرتے ہیں ہمارے بھی ہیں مہرباں کیسے کیسے ؟ نیشنل اسمبلی میں تقریر کرتے ہوئے بلاول بھٹو صاحب فرماتے ہیں کہ جب بارش آتا ہے تو پانی بھی آتا ہے اور جب زیادہ بارش آتا ہے تو زیادہ پانی آتا ہے ،
اپنا دیوانہ مجھے بنایا ہوتا تو نے
کیوں خردمند بنایا ، نہ بنایا ہوتا
یہ وار بہت ہی بری طرح ناکام ہوا ، سننے میں آرہا ہے کہ نواز لیگ نے پاکستان بھر سے لوگ بلانے کی پوری سعی کی لیکن ناکام رہی ۔ یار لوگ کہہ رہے ہیں کہ بلٹ پروف گاڑی کڑے ٹیسٹ سے گزرتی ہے ٹیسٹ کرنے والے لوہے کی گولیوں سے شیشے کی پختگی کا اندازہ لگاتے ہیں ۔
اب وہ ٹیسٹ کرنے والے حیران ہیں کہ اس پتھر میں کیا تاثر تھا جس نے بلٹ پروف گاڑی کے شیشے کو کریک کردیا ۔ شاید وہ آکر معلوم کرنا چاہیں کہ کونسی پہاڑی سے وہ پتھر لئے گئے تھے کہ جس نے بلٹ پروف گاڑی کا شیشہ توڑا ، اس پر یاد آتا ہے کہ خواجہ سعد رفیق نے کہا تھا کہ ” ہم لوہے کے چنے ہیں“ شاید وہ لوہے کے گولے اسی لوہے سے بنے تھے جن سے شیشے کا ٹیسٹ ہوتا ہے
حکایتیں ہی سہی ، سب کہانیاں ہی سہی
اگر وہ خواب ہے تعبیر کرکے دیکھتے ہیں
یہ ناٹک بے حد مایوس کن تھا ان سارے پلاسٹک کے تھیلوں کی تصویریں موجود ہیں اور شاید ان پلاسٹک کے تھیلوں پر انگلیوں کے نشان اب بھی موجود ہیں ۔ جیسا کہ اوپر عرض کی یہ ناٹک مایوس کن تھا انہوں نے قانون کو اپنے ہاتھ لیا اور لاءاینڈ آرڈر کی دھجیاں بکھیر دیں چاہے تو یہ تھا کہ بلوائیوں کو گرفتار کیا جاتا تو معلوم ہوتا کہ حکومت وقت لاءاینڈ آرڈر کے معاملے میں سنجیدہ ہے ۔
ہاں جام اٹھاﺅ کہ بیاد لب شیریں
یہ زہر تو یاروں نے کئی بار پیا ہے