گورنرجنرل کابلڈپریشر

 اےک مرتبہ مسٹر غلام محمد نے اپنی کھوئی ہوئی جسمانی قوتوں کو بحال کرنے کی ٹھان لی‘ اس مقصد کیلئے لکھنو¿ سے ایک حکیم صاحب طلب کئے گئے جو نابینا تھے اور ان کی عمر ایک سو پانچ برس سے اوپر بتائی جاتی تھی‘ ان کیساتھ ان کا ایک بیٹا بھی تھا جس کی عمر دس برس کے قریب تھی‘ حکیم صاحب کے آتے ہی گورنر جنرل ہاﺅس کا ایک حصہ طبی دوا خانے میں تبدیل ہوگیا‘ دن بھر ہاون دستہ چلتا تھا اور حکیم صاحب کی خواہش کے مطابق جڑی بوٹیاں حاضر ہوتی رہتی تھیں‘مغزیات اور لحمیات وغیرہ سے انواع و اقسام کی مقوی ادویات اور کشتہ جات تیار ہوتے تھے‘ جنہیں مسٹر غلام محمد کو بڑے اہتمام سے کھلایا جاتا تھا اس ساری کاروائی کا کوئی اور نتیجہ تو برآمد نہ ہوا البتہ ان کا بلڈ پریشر مزید بڑھ گیا اور ایک روز وہ اچانک بے ہوش ہو کر کوما میں چلے گئے‘ حکیم صاحب تو بستر بوریہ سنبھال کر رفوچکر ہوگئے اور گورنر جنرل کو آکسیجن لگادی گئی‘ مسٹر غلام محمدکے ذاتی معالج کرنل (بعد میں بریگیڈیئر)سرور دن رات ان کے پاس رہے‘ اگلے روز شام کے چار بجے کے قریب انہوں نے مجھے بتایا کہ گورنرجنرل کی زندگی کا چراغ گل ہونے کے قریب ہے اس لئے میں پرائم منسٹر اور کابینہ کے دوسرے وزیروں کو اطلاع دیدوں کہ اگر وہ ان کا آخری دیدار کرنا چاہتے ہیں تو فوراً یہاں پہنچ جائیں‘ مسٹر غلام محمد کے بیڈ روم کے دروازے کھول دیئے گئے اور دیکھتے ہی دیکھتے سارا کمرہ وزیراعظم سمیت کابینہ کے ممبروں اور گورنر جنرل کے ذاتی عملے سے کھچا کھچ بھر گیا‘ وزیر دفاع اور کمانڈر انچیف جنرل محمد ایوب خان فوجی وردی میں ملبوس تھے‘ ۔

یکایک مسٹر غلام محمد کے منہ پر لگے ہوئے آکسیجن ماسک میں کچھ جنبش سی ہوئی پھر ایک ہاتھ ہلا‘ پھر دوسرا ہاتھ ہلا اور کرنل سرور نے بڑی خوشی سے اعلان کیا کہ گورنر جنرل ہوش میں آرہے ہیں‘ یہ سنتے ہی ساری کی ساری کیبنٹ سرپر پاﺅں رکھ کر وہاں سے بھاگ گئی اور تھوڑی دیر کے بعد مسٹر غلام محمد تکیوں کے سہارے بیٹھے چائے اور کسٹرڈپڈنگ نوش فرما رہے تھے اور ساتھ ہی اپنے سٹاف کے ایک ایک فرد کو الگ الگ بلا کر تحقیق فرما رہے تھے کہ ان کی بے ہوشی کے دوران کون شخص کتنا خوش تھا اور کون کتنا غمگین۔(شہاب نامہ سے اقتباس )